بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کافر حربی کے مال کو مباح سمجھنا / موڈیفائڈاپیلیکیشنز استعمال کرنا / ویب سائٹس پر ایڈز (اشتہارات) کے ذریعہ کمانا


سوال

1: کچھ حضرات سے سنا کہ حربی کافر کا مال مباح الاستعمال ہوتا ہے۔ كیا یہ درست ہے؟

2:انٹرنیٹ پر کچھ ایپلیکیشن ایسی ہیں جو کفار کی بنائی ہوئی ہیں ، ان میں ایسے ورژن بھی ہوتے ہیں جس میں کچھ اضافی فیچرز ہوتے ہیں لیکن وہ مفت نہیں ہوتے، بلکہ پیسے وغیرہ دے کر اُنہیں استعمال کیا جاتا ہے، تو بہت سے ڈیویلپرز اُن کا توڑ نکال کر ایسے ورژن نکال لیتے ہیں، جس میں پیسوں کی ادائیگی کے بغیر اِن فیچرز کا استعمال ممکن ہو جا تا ہے، انہیں ”موڈیفائڈاپیلیکیشنز“ کہتے ہیں۔لہذا ایسی ایپلیکیشن کا استعمال کرنا کیسا ہے؟

3: کیا ایسی ویب سائٹ بنانا جائز ہے جہاں  سے یہ موڈیفائڈ ایپس ڈاؤن لوڈ کی جا سکیں ؟

4:ان ویب سائٹ پر لگنے والے ایڈز (اشتہارات)وغیرہ سے کمانا کیسا ہے؟

جواب

1:بصورتِ مسئولہ کافر حربی کا مال مطلقاً مباح الاستعمال نہیں ہے، لہذا  اگر کوئی کافر حربی اسلامی ملک میں ویزہ لے کر آیا ہو  یہاں امن و سکون اور قانون کی پاسداری کر کے رہ رہا ہو، تو وہ ذمی کہلائے گا اوراُس کا مال کسی کے لیے لینا جائز نہیں ،اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی دارالحرب میں رہتا ہو یا کوئی مسلمان ویزہ لے کر کسی کافر ملک میں گیا ہو ، تو وہاں کسی کافر حربی کے مال کو نقصان پہنچانے کی صورت میں وہ ضامن ہوگا، اور اگر کوئی مسلمان کسی کافر حربی کی کوئی چیز اُسے بتائے بغیر لے لی ہو تو واپس لوٹانا ضروری ہے اور اگر واپس لوٹانا ممکن نہ ہوتو اُسے صدقہ کردینا چاہیے۔ البتہ اگر کافر حربی مسلمانوں کے خلاف جنگ میں برسرپیکار ہو، تو اُس صورت میں اُس کا مال مباح الاستعمال ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"المستأمن أي الطالب للأمان (هو من يدخل دار غيره بأمان) مسلما كان أو حربيا (دخل مسلم دار الحرب بأمان حرم تعرضه لشيء) من دم ومال وفرج (منهم) إذ المسلمون عند شروطهم (فلو أخرج) إلينا (شيئا ملكه) ملكا (حراما) للغدر (فيتصدق به) وجوبا، قيد بالإخراج لأنه لو غصب منهم شيئا رده عليهم وجوبا.

(قوله إذ المسلمون عند شروطهم) لأنه ضمن بالاستئمان أن لا يتعرض لهم، والغدر حرام.

(قوله فلو أخرج إلخ) تفريغ لكون الملك حراما على حرمة التعرض كما أشار إليه بقوله للغدر.

(قوله فيتصدق به) لحصوله بسبب محظور وهو الغدر.

(قوله قيد بالإخراج لأنه لو غصب إلخ) يعني ولم يخرجه لأنه محترز القيد، وعبارته في الدر المنتقى قيد بالإخراج لأنه لو لم يخرجه وجب رده عليهم للغدر."

(كتاب الجهاد، باب المستامن، ج:4، ص:166، ط:سعيد)

دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"محترم: هو الشيء الذي يحرم ويمنع أخذه بلا سبب شرعي. وبهذا يخرج ‌مال ‌الحربي أي إذا حاربت جنود المسلمين جنود العدو فتمت لها الغلبة عليه وافتتحت بلاده فبما أن أخذ ما يقع في اليد من الأموال والغنائم في البلاد المفتوحة جائز فلا يكون الأخذ المذكور غصبا؛ لأن الأموال المذكورة ليست محترمة (العناية والقهستاني) ."

(الکتاب الثامن، ج:2، ص:498، ط: دارالجیل)

2:اگر مذکورہ اپلیکیشنز بنانے والی کمپنیوں کی طرف سے ان کے پیڈ اور پریمیم ورژن (جنہیں خریداری کے بعد استعمال کرنا ممکن ہو اُن)کی”موڈیفائڈاپیلیکیشنز“بنانے کی اجازت نہ ہو اور قانوناً بھی ایسا کرنا جرم ہو تو ایسی صورت میں اس قسم کی ایپس کی  ”موڈیفائڈاپیلیکیشنز“ بنانے اور اُس   کے استعمال سے اجتناب کرنا بہتر ہے، تاکہ قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ ہو، خود کو خطرے اور تہمت کے مواقع سے بچانا شریعت کی تعلیمات میں سے ہے۔تاہم اگر کسی نے اصل اپلیکیشن کا ”پریمیم ورژن“  خریدا تھا، اور اُس کی خریداری  کے وقت کمپنی نے کسٹمر(خریدار) پر اُس ”پریمیم ورژن“ کو موڈیفائڈ کرنے کے سلسلے میں پابندی نہیں لگائی تھی، بعدازاں وہ اپنے خریدے ہوئے ”پریمیم ورژن“ کی موڈیفائڈ ایپ بنائے، یا کسی کو وہ ”پریمیم ورژن“ دے دے ، اور وہ اُس کو موڈیفائڈ کردے تو اِس صورت میں  اس کے استعمال کی گنجائش ہوگی۔تاہم یہ   واضح رہے کہ اگر مذکورہ اپلیکشنز کو استعمال کرنے  یا  مؤڈیفائڈ کرنے  یا  موڈیفائڈ کے بعد استعمال کرنے میں کسی بھی قسم کی جاندار کی ویڈیو/تصویر دیکھنے ،یا  جاندار کی گرافکس ڈیزائنگ/ایڈیٹنگ کا مرحلہ آئے یا موسیقی  وغیرہ جیسی کوئی شرعی خرابی لازم آرہی ہو تو شرعاً نہ اِن ایپلیکشنز کا استعمال درست ہے اور نہ ہی ان کو موڈیفائڈ کرنا جائز ہے، خواہ کمپنی کی طرف اجازت ہو ۔

3:درج بالا تفصیل کے مطابق جن ”موڈیفائڈاپیلیکیشنز“کے بنانے اور استعمال کرنے میں کوئی شرعی خرابی لازم نہ آئے تو اُن ”موڈیفائڈاپیلیکیشنز“  کے لیے ویب سائٹ بنانے کی بھی اجازت ہوگی بشرطیکہ خود ویب سائٹ کے بنانے میں متذکرہ بالا خرابیاں لازم نہ آئیں، ورنہ شرعاً ویب سائٹ بنانا بھی ممنوع ہے۔

مبسوط سرخسی میں ہے:

"والحاصل أن من تصرف في خالص ملكه لم يمنع منه في الحكم، وإن كان يؤدي إلى إلحاق الضرر بالغير ... فعرفنا أن المالك مطلق ‌التصرف فيما هو خالص حقه، وإن كف عما يؤذي جاره كان أحسن له."

(كتاب القسمة، ج:15، ص:21، ط:دار المعرفة)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"‌حقوق ‌التأليف والاختراع أو الابتكار مصونة شرعا، ولأصحابها حق التصرف فيها، ولا يجوز الاعتداء عليها."

(قرارات مجمع الفقه الإسلامي، ج:7، ص:5160، ط:دارالفكر)

بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:

"وما يفضي إلى ‌الحرام ‌فحرام."

 

(كتاب الصلوة، ج:2، ص:354، ص:دارالكتب العلمية)

4: بصورتِ مسئولہ گوگل کی جانب سے ویب سائٹ پر جو  ایڈز (اشتہارات)  چلائے جاتے ہیں اُن میں عمومی طور پر چندخرابیاں پائی جاتی ہیں، جیسے  جاندارکی تصویر اور ویڈیوز  کا استعمال بالخصوص بے پردہ خواتین کی تصاویر ویڈیوزبے تحاشاپائی جاتی ہیں، اُن  میں میوزک موسیقی کا بھی عام استعمال ہوتا ہے،غیرشرعی امور مثلاً جوا یا سودی کاروبار کے اشتہارات بھی بکثرت پائے جاتے ہیں، اِن اشتہارات کے لیے غیرشرعی معاہدے بھی ہوتے ہیں، نیز اِن اشتہارات پر گوگل انتظامیہ کی جانب اجارہ کا معاہدہ کیا جاتا ہے وہ بھی غیر شرعی ہوتاہے۔ مذکورہ بالا خرابیوں کے پیشِ نظر ویب سائٹ پر گوگل ایڈز (اشتہارات) چلوانا اور اُنہیں کمائی کا ذریعہ بنانا جائز نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں مزید تفصیل کے لیے دارالافتاء بنوری ٹاؤن کی ویب سائٹ پر موجود مذکورہ فتویٰ  ملاحظہ ہو:

ویب سائٹ بناکر گوگل اشتہار کے ذریعے پیسے کمانے کا شرعی حکم

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و منها أن يكون مقدور الإستيفاء - حقيقة أو شرعًا فلايجوز استئجار الآبق و لا الإستئجار على المعاصي، لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الإستيفاء شرعا."

(کتاب الإجارۃ ج: 2، ص: 411، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا تصح الإجارة لعسب ‌التيس) وهو نزوه على الإناث (و) لا (لأجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاهي)."

(کتاب الإجارۃ ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، ج:6، ص: 55، ط: سعید)

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

"الإجارة على ‌المنافع ‌المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة وعقدها باطل لا يستحق به أجرة. ولا يجوز استئجار كاتب ليكتب له غناء ونوحا؛ لأنه انتفاع بمحرم."

(الإجارة، الفصل السابع، الإجارة على المعاصي والطاعات، ج؛1، ص:290، ط:دارالسلاسل)

فقط والله تعالى اعلم بالصواب


فتوی نمبر : 144610100720

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں