سوال نمبر1:اگر کوئی کہےکہ اگر میرا فلاں کام ہوجاۓتومیرےذمے تین روزے لازم ہیں اور ذہن میں روزے مسلسل رکھنے یا نہ رکھنے کی نیت نہ ہو یا مسلسل رکھنے یا نہ رکھنے کی نیت ہو تو کام ہوجانے کی صورت میں اس شخص پر روزے مسلسل رکھنا لازم ہیں یا الگ الگ بھی رکھ سکتا ہے ؟
سوال نمبر2:اگر کوئی شخص نفل نماز پڑھ رہا ہو یا وتر پڑھ رہا ہو اور درمیان میں صبح صادق طلوع ہوجاۓ تو پھر اس نماز کا کیا حکم ہے ؟
سوال نمبر3:اگر کوئی شخص اپنی تلاوت کا ایصال ثواب دوسرے کئی افراد کے لئے بخش دے تو کیا تلاوت کرنے والے کو بھی اپنی تلاوت کا پورا ثواب مل جاتا ہے ،فرق تو نہیں پڑتا؟
اور کئی افراد کو ثواب بخشنے سے کیا سب افراد کو پورا پورا ثواب ملتا ہے ؟"مثلا :ایک مکمل قرآن مجید کی ایصال ثواب اگر تین افراد کو بخش دیا تو سب کے سب کو پورا قرآن مجید کا ثواب مل جاتا ہے یا نہیں؟
1:اگر نذر کے روزوں میں کسی شخص نے تسلسل کے ساتھ روزے رکھنے کی نیت کی ہو یا الفاظ اد اکیے ہوں تو اس صورت میں متعلقہ کام ہوجانے پر نذر کے روزے پے درپے رکھنے لازم ہوں گے،اور اگر تسلسل کےساتھ روزے رکھنے کی نذر نہیں مانی تو پے درپے رکھنا لازم نہیں ہوں گے، الگ الگ کرکے بھی رکھ سکتا ہے۔
2:اگر کسی شخص نے طلوع صبح صادق سے پہلے نفل یا وتر کی نیت باندھی ہو اور اس دوران صبح صادق طلوع ہوجاۓتو وہ شخص اس نفل یا وتر کو پورا کردے اور یہ نماز نفل یا وتر ہی شمار ہوگی ۔
3:اگر کوئی شخص کئی افراد کے لئے ایصال ثواب کرتا ہے تو اس کے اپنے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور باقی کئی افراد کے لئے اگر ایصال ثواب کرتا ہے تو احتمال دونوں ہیں کہ سب میں تقسیم ہوکر ملے گا یا سب کو پوراپوراملے گا ،لیکن اللہ تعالی کی رحمت سے امید یہی ہے کہ سب کو پوراپورا مل جاۓ۔
شعب الایمان للبیہقی میں ہے:
"عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله ﷺ من حج عن والدیه بعد وفاتهما کتب له عتقاً من النار، وکان للمحجوج عنهما أجر حجة تامة من غیر أن ینقص من أجور هما شیئاً".
( بر الوالدین ،فصل "لیس شیئ احط للذنوب من بر الوالدین" ج:6،ص:204،ط: دارالکتب العلمیة، بیروت)
فتاوی شامی میں ہے:
" الأفضل لمن یتصدّق نفلًا أن ینوي لجمیع المؤمنین و المؤمنات؛ لأنّها تصل إلیهم، ولاینقص من أجره شيءٍ اهـ هو مذهب أهل السنة والجماعة".
(کتاب الصلاة، باب الجنائز، مطلب في القراء ة للمیت وإهداء ثوابها له، ج:2،ص:243، ط:سعید)
در المختار و حاشیہ ابن عابدین میں ہے
"(ولو نذر صوم شهر غير معين متتابعافأفطر يوما) ولو من الأيام المنهية (استقبل) لأنه أخل بالوصف مع خلو شهر عن أيام نهي )
وفي البحر: لو أوجب على نفسه صوما متتابعا فصامه متفرقا لم يجز وعلى عكسه جاز. "
(کتاب الصوم،فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم،ج:2،ص:436،ط:سعید)
المحیط البرھانی میں ہے:
"إذا صلى ركعتين في آخر الليل ينوي بهما ركعتي الفجر، فإذا تبين أن الفجر لم يطلع لم يجزئه عن ركعتي الفجر، وكذلك إذا وقع الشك في طلوع الفجر في الركعتين أو وقع الشك في إحدى الركعتين أنها وقعت قبل طلوع الفجر لم يجزئه ذلك عن ركعتي الفجر، ولو صلى بعد طلوع الفجر ركعتين بنية التطوع كان ذلك عن ركعتي الفجر، هكذا حكي عن الفقيه أبي جعفر."
(کتاب الصلاۃ،الفصل الحادي والعشرون في التطوع قبل الفرض وبعده وفواته عن وقته وتركه بعذر وبغير عذر،ج:1،ص:444،ط:دارالکتب العلمیۃ بیروت)
امداد الاحکام میں ہے:
"دونوں صورتیں محتمل ہیں،قواعد سے تو یہی راجح معلوم ہوتا ہے کہ تقسیم ہوکر ملے گا،جیسا کہ حضرت گنگوہی قدس سرہ نے ارشاد فرمایا ہے،ولیکن فضل خداوندی سے یہ بھی بعید نہیں کہ وہ سب کو پورا پورا دیدے۔"
(کتاب العلم،فصل فی تعلیم القرآن وتلاوتہ ومتعلقاتہ،ج:1،ص:248،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101536
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن