بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کئی افراد کو قابلِ تقسیم چیز کا ہبہ صحیح نہیں ہے۔


سوال

ہمارے جد امجد نے 130 سال قبل ایک خشکابہ زمین بارانی، اصل مالک سے بطور مستقل کاشتکار (موروثی بٹائی دار) کے طور پر کاشت کے لیے معاہدہ کیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ اراضی ہمارے دادا نے خریدی نہیں تھی۔ پھر دادا کی دیگر اولاد سو سال قبل دیہات سے شہر چلی گئی۔ گزشتہ 50 سال سے سائل اس اراضی کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ موجودہ وقت میں اصل مالکوں نے علاقائی رسم و رواج کے مطابق ہمیں نصف اراضی کا مالک بنا دیا ہے، لیکن دیگر ورثاء اس میں حق طلب کر رہے ہیں۔

کیا شرعی طور پر دیگر ورثاء کو اس اراضی میں حقِ ملکیت حاصل ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر اصل مالکان نے یہ زمین صرف آپ کو ہی گفٹ کی ہے اور آپ ہی کو اس کا واحد مالک بنایا ہے، تو اس صورت میں زمین کی ملکیت صرف آپ کی ہوگی، اور دیگر ورثاء کا اس میں کوئی حق نہیں ہوگا۔ لیکن اگر اصل مالکان نے زمین آپ کے جد امجد کے  تمام ورثاء کو گفٹ کی ہے، تو یہ ہبہ قابلِ تقسیم چیز کا ہوگا، اور قابلِ تقسیم چیز کا ہبہ کئی لوگوں کے لیے درست نہیں ہوتا۔

عالمگیری میں ہے:

"وأما حكمها فثبوت الملك للموهوب له

لو قال: نحلتك داري، أو أعطيتك، أو وهبت منك، كانت هبة، كذا في شرح الطحاوي.

 ولو قال: جعلت لك هذه الدار، أو هذه الدار لك فاقبضها، فهو هبة، هكذا في فتاوى قاضي خان.

 قوله " هذه الدار لك " أو " هذه الأرض لك " هبة لا إقرار، كذا في القنية."

(کتاب الہبۃ ،الباب الثانی فی ما یجوز من الہبہ و مالایجوز من الہبۃ،ج:4،ص:478،ط:دار الفكر بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكذا قوله جعلت هذا الشيء لك وقوله هو لك لأن اللام المضاف إلى من هو أهل للملك للتمليك فكان تمليك العين في الحال من غير عوض وهو معنى الهبة."

(کتاب الہبۃ ،رکن الہبہ ،ج:6،ص:116،ط:دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله ولو وهب اثنان دارا لواحد صح) لأنهما سلماها جملة وهو قد قبضها جملة فلا شيوع (قوله لا عكسه) وهو أن يهب واحد من اثنين كبيرين ولم يبين نصيب كل واحد عند أبي حنيفة لأنه هبة النصف من كل واحد منهما بدليل أنه لو قبل أحدهما فيما لا يقسم صحت في حصته دون الآخر فعلم أنها عقدان."

(کتاب الہبۃ،قبض زوج الصغیرۃ ما وہب بعد الزفاف،ج:7،ص:289،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144609100851

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں