بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا اسائمنٹ لکھنے کی اجرت حلال ہے؟


سوال

آج کل پیسے دے کر اسائمنٹ لکھوانے کا کام بھی جاری ہے آپ کے ادارے کے فتاوی پڑھ رہا تھا ان میں دو فتوے نظر سے گزرے ایک میں ایسی آمدن کو جائز قرار دیا گیا ہے دوسرے میں نا جائز قرار دیا گیا ہے نظر ثانی فرما کر راہ نمائی فرمائیں کہ طلبہ کے اسائمنٹ لکھ کر حاصل کی جانے والی کمائی حلال ہے یا نہیں؟
 https://www.banuri.edu.pk/readquestion/muaawazah-ly-kar-dusry-taleb-ilm-ka-assignment-likhna-144406101189/08-01-2023 اس فتوی میں ایسی اجرت کو جائز قرار دیا ہے۔

جب کہ اس فتویhttps://www.banuri.edu.pk/readquestion/maawaza-dy-kr-assignment-likhwana-/07-07-2020میں ناجائز قرار دیا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ   طلبہ کا اجرت دے کر اسائنمنٹ ، اور تھیسز( مقالہ جات ) تحریر کرانا(جسے وہ  طالب علم بذات خودسر انجام دینے کا پابند ہے اور جس کی بنیاد پر اس کی صلاحیت  کا امتحان اور اس کی محنت کا اندازہ ہوتا ہے  تاکہ وہ اپنے نام سے وہ اسائنمنٹ جمع کراکر مستقبل میں سند حاصل کرسکے)   جھوٹ اور  دھوکا  دہی میں شامل ہے ،اور کسی کاایسے طلبہ کے لیے اسائنمنٹ وغیرہ تحریر کرکے دینااور اس پر اجرت لینا گناہ کے کام میں تعاون کی وجہ سے گناہ ہے اور اس کی اجرت کراہت سے خالی نہیں ،نیز  اس طرح  کے کام کرنے سے معاشرہ میں تعلیمی قابلیت کا فقدان ہوگا،محنت کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی،اور بعد میں یہی  نا اہل لوگ قوم پر مسلط ہوں گے

لہذاایسے لوگوں کا کام کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے اور  اس کے بدلہ کوئی اور حلال پاکیزہ  ذریعہ رزق تلاش کرنا چاہیے،البتہ جائز مضمون لکھنے کی وجہ سے اسائنمنٹ کی اجرت حرام نہیں۔

لہذا سائل نے جو ویب سائٹ کے دو فتووں کا ذکر کیا ہے ان میں سے جس میں اجرت کو جائز کہا وہ نفس مضمون کے اعتبار سے کہا کہ اجرت ناجائز اور حرام نہیں ،باقی دوسرے فتوٰی میں گناہ کے کام میں معاونت سے منع کرتے ہوئے اس کی کی حوصلہ شکنی کی بنیاد پر اس فعل کےعدمِ جواز کا حکم لگایا ہے،لہذا دونوں جوابوں میں تضاد نہیں۔

فتاوی ولوالجیہ میں ہے:

"ولو استأجر رجلاً ليكتب له غناءً، أو ليبني بيعة أو كنيسة أة استأجرته امرأة ليكتب لها كتاباً إلى حبيبها، أة استأجره لينحت له طنبوراً، أو بربطاً تجب الأجرة، ويطيب له ذالك، لأنه إعانة على المعصية. والله أعلم."

(كتاب الاجارة، الفصل الرابع فيما تكره الاجارة وفيما لا تكره، ج:3، ص:386، دار الكتب العلمية)

فتاوی قاضی خان میں ہے:

"وإن استأجر لينحت له طنبورا أو بربطا، ففعل طاب له الأجر إلا أنه يأثم به. وكذا لو استأجر رجلا ليكتب له غناءً بالفارسية أو بالعربية، طاب له الأجر."

(کتاب الإجارات، باب الإجارۃ الفاسدۃ، ج:2، ص:226، ط:دار الکتب العلمية)

کفایت المفتی میں ہے:

”سوال[4766]: کاتب الرہن کو رہن نامے کے لکھنے پر اجرت لینی جائز ہے یا نہیں؟جب کہ یہ معلوم ہو کہ رہن رکھنے والا شیئ مرہون سے یقیناً فائدہ اٹھائے گا۔

جواب: اگر رہن نامہ میں بھی نفع اٹھانے کی شرط لکھی جائے تو اس کی کتابت اور کتابت کی اجرت ناجائز ہے، اور یہ شرط تحریر نہ ہو تو پھر کاتب کے لیے رہن نامہ کی کتابت اور اس کی اجرت لینی جائز ہے۔“

(کتاب الاجارۃ، جلد:11، صفحہ:469، ادارۃ الفاروق کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144606100557

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں