بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کالے رنگ کے علاوہ برقعہ پہننے کا حکم


سوال

کیا عورت کالے رنگ کے علاوہ کسی او ررنگ کا عبایا پہن سکتی ہے جب کہ نیت شرعی پردے کی ہو اور وہ عبایا بالکل سادہ ہو کوئی موٹی نہ ہو اور سر سے ٹخنوں تک چھپاہو تو کیا شرعی پردے کا تقاضا پورا ہوجائے گا کیا عورت ہتھیلی اور پنجے کھول سکتی ہے؟

جواب

1۔واضح رہے کہ نقش ونگار سے مزین اور ایسا جاذبِ نظر برقع پہننا جو نامحرموں کو اس کی طرف متوجہ ہ کرے، جائز نہیں ہے، برقعہ  سادہ اور ڈھیلا ڈھالا ہونا چاہیے جس میں جسم یا اندر کا زنانہ لباس نظر نہ آئے اور اس سے اعضاء کی ساخت و ہیئت بھی ظاہر نہ ہو، نیز رنگ بھی ایسا ہو جو دیکھنے والے کو مائل نہ کرے۔لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ عبایا اگر واقعۃ ڈھیلا ڈھالا ہے اور پورا جسم اس میں چھپا ہوا ہوتا ہے ایسا عبایا پہننا جائز ہے تاہم بہت زیادہ شوخ رنگ کا نہ ہویہ پردے کے مقصد کے خلاف ہے اور جہاں تک شرعی پردہ کی بات ہےتو شرعی پردے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت نے عورت کو جتنے پردے کا حکم دیا ہے، اس کا اہتمام کرتے ہوئے پردہ کرے، عورت کا تمام بدن ستر ہے، اپنے گھر میں بھی اس کو مستور اور پوشیدہ رکھنا فرض اور لازم ہے، مگر    دونوں ہاتھ  ہر وقت ان کو چھپائے رکھنا بہت دشوار ہے، اس لیے یہ اعضاء ستر سے خارج ہیں، اپنے گھر میں ان اعضاء کا کھلا رکھنا جائز ہے، البتہ فتنہ کا زمانہ ہونے کی وجہ سے  گھر سے باہر نکلتے ہوئے ان کا چھپانا بھی ضروری ہے۔ لہذا اگر سائلہ گھر سے نکلتے وقت ہاتھو ں کو چھپاتی ہے تو شرعی پردے کا تقاضا پورا ہوجائےگا۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى: {ولا يضربن بأرجلهن ليعلم ما يخفين من زينتهن} روى أبو الأحوص عن عبد الله قال: "هو الخلخال"، وكذلك قال مجاهد: "إنما نهيت أن تضرب برجليها ليسمع صوت الخلخال" وذلك قوله: {ليعلم ما يخفين من زينتهن} . قال أبو بكر: قد عقل من معنى اللفظ النهي عن إبداء الزينة وإظهارها لورود النص في النهي عن إسماع صوتها; إذ كان إظهار الزينة أولى بالنهي مما يعلم به الزينة، فإذا لم يجز بأخفى الوجهين لم يجز بأظهرهما; وهذا يدل على صحة القول بالقياس على المعاني التي قد علق الأحكام بها، وقد تكون تلك المعاني تارة جلية بدلالة فحوى الخطاب عليها وتارة خفية يحتاج إلى الاستدلال عليها بأصول أخر سواها. وفيه دلالة على أن المرأة منهية عن رفع صوتها بالكلام بحيث يسمع ذلك الأجانب; إذ كان صوتها أقرب إلى الفتنة من صوت خلخالها; ولذلك كره أصحابنا أذان النساء; لأنه يحتاج فيه إلى رفع الصوت والمرأة منهية عن ذلك، وهو يدل أيضا على حظر النظر إلى وجهها للشهوة; إذ كان ذلك أقرب إلى الريبة وأولى بالفتنة."

(‌‌ومن سورة النور، ‌‌باب الرجل يطلق امرأته طلاقا بائنا ثم يقذفها، ‌‌في إباء أحد الزوجين اللعان، جلد 3 ص: 412، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وإن كان على المرأة ثياب فلا بأس بأن يتأمل جسدها وهذا إذا لم تكن ثيابها ملتزقة بها بحيث تصف ما تحتها، ولم يكن رقيقا بحيث يصف ما تحته، فإن كانت بخلاف ذلك فينبغي له أن يغض بصره اهـ.وفي التبيين قالوا: ولا بأس بالتأمل في جسدها وعليها ثياب ما لم يكن ثوب يبين حجمها، فلا ينظر إليه حينئذ........أقول: مفاده أن رؤية الثوب بحيث يصف حجم العضو ممنوعة ولو كثيفا لا ترى البشرة منه."

(کتاب الحظر و الإباحة،فصل فی النظر و المس جلد 6 ص: 365,366 ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144510100852

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں