عامر نے کلمہ پڑھ کر یہ الفاظ کہے کہ "میں عمرہ پر نہیں جاؤں گا" پھر وہ چلا جاتا ہے، تو کیا اس پر کفارہ لازم ہوگا یا نہیں؟
واضح رہے کہ کلمہ پڑھنا بذاتِ خود قسم نہیں ہے، البتہ اس کے قسم بننے میں نیت اور ارادے کا اعتبار ہے، لہذا قسم کی نیت سے کلمہ پڑھ کر قسم کھائی جائے تو قسم منعقد ہوجاتی ہے، اور جہاں کلمہ پڑھ کر قسم کھانے کا عرف عام ہو تو وہاں بغیر نیتِ قسم کے ہی قسم ہوجائے گی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر عامر نے کلمہ قسم کی نیت سے پڑھا ہو تو اس صورت میں قسم منعقد ہوگئی تھی، اس لیے اس کے بعد اگر وہ عمرہ پر جائے گا، تو وہ اپنے قسم میں حانث ہوجائے گا، اور اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا، اور قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے ( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم) اور اگر جو دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے، یا دس فقیروں کو ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے۔ اور اگر کوئی شخص ایسا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو مسلسل تین روزے رکھے، اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله وسبحان الله إلخ) قال في البحر: ولو قال لا إله إلا الله لا أفعل كذا لا يكون يمينا إلا أن ينوي، وكذا قوله " سبحان الله والله أكبر " لا أفعل كذا لعدم العادة اهـ
قلت: ولو قال: الله الوكيل لا أفعل كذا ينبغي أن يكون يمينا في زماننا لأنه مثل الله أكبر لكنه متعارف (قوله لعدم العرف) قال في البحر: والعرف معتبر في الحلف بالصفات."
(كتاب الأيمان، ج: 3، ص: 715، ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو قال: لا إله إلا الله لأفعلن كذا فليس بيمين إلا أن ينوي يمينا، وكذلك سبحان الله، والله أكبر لأفعلن كذا، كذا في السراج الوهاج."
(كتاب الأيمان، الباب الثاني فيما يكون يمينا وما لا يكون يمينا، الفصل الأول، ج: 2، ص: 55، ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ومنعقدة، وهو أن يحلف على أمر في المستقبل أن يفعله، أو لا يفعله، وحكمها لزوم الكفارة عند الحنث كذا في الكافي."
(كتاب الأيمان، الباب الأول، ج: 2، ص: 52، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
(وكفارته)... (تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين)... أو كسوتهم بما)... (يستر عامة البدن)... (وإن عجز عنها)... (صام ثلاثة أيام ولاء).
(كتاب الأيمان، ج: 3، ص: 725۔727، ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144606100597
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن