بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کم شرح سود پر بھی قرضہ لیں جائز نہیں


سوال

میں بینک الفلاح میں جاب کرتا ہوں اور وہاں کافی کم مارک  اپ ریٹ پر ملازمین کوگھر کے لے لون مل جاتا ہے، جناب میرے پاس کوئی اور  راستہ نہیں کہ مکان لے سکوں، کیا گھر خریدنے کے لیے بینک ملازم کی حیثیت  سے گھر خریدنے کے لیے  قرضہ لے سکتاہوں؟ قرضہ لینا حلال ہوگا یا حرام؟

 

جواب

کسی کو قرض دیتے وقت قرض دی گئی رقم سے زائد واپس کرنے کی شرط لگانا،  سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے، پس صورت مسئولہ  میں بینک ملازمین  کو کم سے کم شرح سود پر قرض دینا بھی شرعاً  سودی معاملہ  شمار ہوگا، لہذا  ایسا قرضہ  حاصل کرنا جائز نہیں ۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"[مطلب كل قرض جر نفعا حرام]

(قوله: كل قرض جر نفعا حرام) أَي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن الْبحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإِن لم يكن النفع مشروطا في الْقرض، فعلي قول الْكرخي لا بأْس به ويأْتي تمامه."

(كتاب البيوع، باب المرابحة و التولية، فصل في القرض، ٥ / ١٦٦ ، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144511100565

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں