بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کا ملازمین سے لیٹ آنے کی صورت میں مالی جرمانہ لینے کاحکم


سوال

ہماری کمپنی کے کچھ شرائط وضوابط ہیں ، پوچھنا یہ تھا،ہماری یہ شرائط قرآن وسنت کےمنافی تو نہیں ؟

1۔کمپنی کی ٹائمنگ صبح 10:00بجے سے شام 6:30 بجے تک ہے۔

2۔ملاز م کو مہینے میں تین دن 15 منٹ لیٹ آنے کی رعایت ہے، چوتھے دن لیٹ آنے کی صورت میں 2گھنٹے کا ٹے جائیں گے۔

3۔کمپنی میں ملازم کو کام کی صورت حال کےمطابق اوورٹائم لگانا ہوگا ( اوورٹائم لگانے کی اضافی رقم بھی دیں  گے)،اوورٹائم نہ لگانے کی صورت میں کمپنی ایکشن لے سکتی ہے۔

4۔چھٹی کرنے پر ملازم کے پیسے کاٹے جائیں گے اور پورے ماہ چھٹی نہ کرنے پر حاضری الاؤنس دیں گے۔

5۔ملازم کے عہدہ کےمطابق فیکٹری ڈیوٹی ٹائم میں ان سے کوئی بھی کام لے سکتی ہے۔(یعنی مثلاًاگر کسی ملازم کا کام کمپیوٹر پر ہو تو اس سے منشی کا کام لے سکتے ہیں)

6۔ملازم نوکری چھوڑنے سے پہلے کمپنی کو 15دن کا ٹائم دے گااوراگر کمپنی نوکری سے نکالے گی تو پھر کمپنی ملازم کو 15دن کا ٹائم دے گی۔

نوٹ: اگر ملازم نوکری چھوڑنے سے پہلے کمپنی کو 15دن کا ٹائم نہیں دےگا تو کمپنی پیسے روک لے گی، اگر کمپنی ملازم کو نکا لنے سے پندرہ دن  پہلے ٹائم نہیں دے گی تو کمپنی پیسے دے گی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ اکثر شرائط کا تعلق انتظامی امور سے ہے،جس کا مقصد  کمپنی کےملازمین کو کام پر پاپند کرنا اور کمپنی کا نظم وضبط درست کرنا ہے۔

1۔کمپنی کی پہلی شرط(کمپنی کی ٹائمنگ صبح 10:00بجے سے شام 6:30 بجے تک ہے)چوں کہ انتظام  اورملازمت کےاوقات کی تحدید سے متعلق ہے؛ اس لیے یہ درست   ہے۔

2۔دوسری شرط(ملاز م کو مہینے میں تین دن 15 منٹ لیٹ آنے کی رعایت ہے، چوتھے دن لیٹ آنے کی صورت میں 2گھنٹے کا ٹے جائیں گے) درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ  چار دن پندرہ منٹ لیٹ آنے کی صورت میں 45 منٹ کے بجائے دو گھنٹے کے پیسے  کاٹے جاتے ہیں ۔

3۔تیسری شرط(کمپنی میں ملازم کو کام کی صورت حال کےمطابق اوورٹائم لگانا ہوگا ، اوورٹائم لگانے کی اضافی رقم بھی دی جائے گی ،اوورٹائم نہ لگانے کی صورت میں کمپنی ایکشن لے سکتی ہے)کےمتعلق اگر ملازم کو پہلے سے آگاہ کیا ہواوراس نے یہ شرط قبول کرلی ہو تو اس کی پابندی ملازم پرلازم ہے۔

4۔چوتھی شرط(چھٹی کرنے پر ملازم کے پیسے کاٹے جائیں گے اور پورے ماہ چھٹی نہ کرنے پر حاضری الاؤنس دیں گے)میں اگر چھٹی کے بقدر  ملازم سے رقم کی کٹوتی ہوتی ہو تودرست ہے۔

5۔پانچویں شرط(ملازم کے عہدہ کےمطابق فیکٹری ڈیوٹی ٹائم میں ان سے کوئی بھی کام لے سکتی ہے)کے بارے میں اگر ملازم کو پہلے سےآگاہ کیا ہو اورملازم نے اس شرط کو قبول کیا ہو تو کمپنی اس سے یہ کام لے سکتی ہے۔

6۔چھٹی شر ط(اگر ملازم نوکری چھوڑنے سے پہلے کمپنی کو 15دن کا ٹائم نہیں دےگا تو کمپنی پیسے روک لے گی) یہ درست نہیں؛ کیونکہ یہ مالی جرمانہ ہے اور  مالی جرمانہ کے طورپیسے کو روکنا جائزنہیں ،بلکہ  کمپنی پر اپنے ملازم کو اس کے ایام کار  کی رقم دینا لازم ہے،باقی شرط  کی دوسری شق ( اگر کمپنی ملازم کو نکا لنے سے پندرہ دن  پہلے ٹائم نہیں دے گی تو کمپنی پیسے دےگی)اس میں کوئی حرج نہیں ۔

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"و عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان و الدارقطني في المجتبى."

(کتاب البیوع،باب الغصب والعاریة،الفصل الثانی،ج1،ص261،رحمانیه)

 فتاوی  شامی   میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ۔والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."

(کتاب الحدود،‌‌ باب التعزير، ج:4، ص:61، ط:سعید)

مجمع الأنهرمیں ہے:

"ولایکون التعزیر بأخذ المال من الجاني في المذهب".

(کتاب الحدود،باب التعزیر،ج:1،ص609،ط:بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"لایجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي".

(کتاب الحدود،باب التعزیر،ج:4،ص:61،ط:سعید)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(المادة 469) تلزم الأجرة باستيفاء المنفعة مثلا لو استأجر أحد دابة على أن يركبها إلى محل ثم ركبها ووصل إلى ذلك المحل يستحق آجرها الأجرة.

تلزم الأجرة باستيفاء المنفعة أي باستيفاء المنفعة المعقود عليها في الإجارة كلها أو بعضها أو إيفاء الأجير العمل الذي استؤجر لأجله وإتمامه؛ لأنه بذلك تتحقق المساواة وتلزم الأجرة سواء أكانت الإجارة صحيحة أو فاسدة، إلا أنه يلزم في الإجارة الصحيحة الأجر المسمى وفي الإجارة الفاسدة أجر المثل."

(الکتاب الثانی الاجارۃ،الباب الثالث في بيان مسائل تتعلق بالأجرة،الفصل الثاني المسائل المتعلقة بسبب لزوم الأجرة،ج1،ص532،ط؛دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607100684

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں