بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی بنانے کے لیے کمپنی کے ٹوکن جاری کرنا کرپٹو کرنسی کی شکل میں


سوال

 یونیورسٹی کے اندر ہمیں انٹرپیونر شپ Entrepreneurship کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ بجائے ہم جاب کریں، ہم بزنس کے نئے آئیڈیا سوچ کر نئی اسٹارٹ اپ کمپنیاں بنائیں۔ میرا سوال ایک نئی اسٹارٹ اپ کمپنی کھول کر فنڈئنگ حاصل کرنے سے متعلق ہے۔میں سب سے پہلے ایک ویب سائٹ بناؤں گا جس میں اپنی نئی اسٹارٹ اپ کمپنی کے پروجیکٹ کی تفصیل بتاؤں گا یعنی میری کمپنی کیا کام کرے گی۔میرے پاس چونکہ صرف نئی کمپنی کا آئیڈیا ہے اور کوئی کیپیٹل اور انفرااسٹریکچر نہیں ہے لہذا میں سب سے پہلے کمپنی کو قائم کرنے کیلئے فنڈئنگ حاصل کرنے کیلئے اپنی کمپنی کے ٹوکن (کرپٹو کرنسی) جاری کروں گا (مثلاً ایک ملین ٹوکن، جبکہ ہر ٹوکن کی قیمت میں ایک امریکی ڈالر رکھوں گا جو کہ ایتھریم کرپٹو کرنسی میں ہوگی) ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایتھریم بلاک چین کرپٹو ٹوکن بنانے کی سہولت فراہم کرتا ہے جس کیلئے میں ای آر سی ۲۰ ERC20 Ethereum Protocol ایتھریم پروٹوکول کو استعمال کروں گا۔پھر اپنی کمپنی کے ان ٹوکن کو میں مارکیٹ میں لانچ کروں گا اور لوگوں سے ان ٹوکنوں کے عوض فنڈئنگ حاصل کروں گا۔لوگ کمپنی کے پروجیکٹ کو دیکھ کر میری اس اسٹارٹ اپ کمپنی کے ٹوکن خریدیں گے اور پھر میں اپنی کمپنی کی شروعات کروں گا۔لوگوں کو میری نئی اسٹارٹ اپ کمپنی کے ٹوکن خریدنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ کچھ عرصے میں میری اسٹارٹ اپ کمپنی کے ٹوکن کی قیمت کرپٹو کرنسی مارکیٹ پلیس میں بڑھ جائے گی کیونکہ لوگ ان ٹوکنوں کی آپس میں خریدوفروخت کریں گا۔اس کے ساتھ ساتھ میں Aave ڈی فائی کے ذریعے فلیش لون کی سہولت فراہم کروں گا اور اس سے جو نفع آئے گا وہ ان ٹوکن ہولڈرز کو دوں گا۔ میرے سوال یہ ہیں کہ

سوال نمبر (1): کیا اس طرح سے نئے اسٹارٹ اپ قائم کرنا شرعی طور پر جائز ہے؟

سوال نمبر (2): کیا ایسے ٹوکن جاری کرنا، اس کے ذریعہ سے فنڈئنگ حاصل کرنا اور پھر اپنے اسٹارٹ اپ پروجیکٹ میں اس فنڈئنگ کو استعمال کرنا جائز ہے؟

سوال نمبر (3): کیا کرپٹو کرنسی مارکیٹ پلیس میں  ان کرپٹو ٹوکن کو زیادہ قیمت پر خرید وفروخت کرنا اور نفع حاصل کرنا جائز ہے؟

سوال نمبر (4): کیا ڈی فائی، Aave اور فلیش لون کو استعمال کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کرپٹو کرنسی ، بٹ کوائن یا ڈیجیٹل کرنسی یہ ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجودنہیں ہیں، لہذا موجودہ  زمانہ میں  "بٹ کوئن ، کرپٹو کرنسی،   ڈیجیٹل کرنسی کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں موجود جو کاروبار چل رہا ہے  وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکہ ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مبیع وغیرہ مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے اس لیے بٹ کوئن یا کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی کے نام نہاد کاروبار میں پیسہ لگانا اور خرید و فروخت  میں شامل ہونا جائز نہیں ہے۔اسی طرح کسی کمپنی کو قائم کرنے کے لیے کرپٹو کرنسی کی شکل میں اس کے ٹوکن  جاری کرنا اور اس کے عوض فنڈنگ حاصل کرنا  اور   پھر اس کرنسی کی مارکیٹ میں خرید و فروخت کرنا اور اس سے نفع حاصل کرنایہ سب ناجائز اور حرام ہے نیز فلیش لون  اور اس پر حاصل ہونے والا نفع بھی ناجائز اور حرام ہے لہذا صورتِ مسئولہ میں:

(1) مذکورہ طریقہ پر کمپنی قائم کرنا  جائز نہیں ہے۔

(2)اور ایسے ٹوکن جاری کرنا اور اس کے عوض فنڈنگ حاصل کرنااور اس کو کمپنی کے پروجیکٹ  میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

(3)ان کرپٹو ٹوکن کی خرید و فروخت کرنا اور اس سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔

(4)ڈی فائی، Aave اور فلیش لون کو استعمال کرنا اور اس سے نفع اٹھانا جائز نہیں ہے۔

درر الحکام شرح مجلۃ الاَحکام العدلیۃمیں ہے:

"وجملة القول أن للثمن معنيين بمعنى أنه قيمة المبيع ويتعلق بالذمة وهو المعنى الوارد في هذه المادة، ومعنى أنه بدل: أي أنه المال الذي يكون عوضا عن المبيع.فيدخل فيه وهو في المعنى الأول المكيلات، والموزونات، والعدديات المتقاربة والنقود دون الأعيان لعدم إمكان ترتبها بالذمة.ويدخل فيه بمعناه الثاني النقود والمكيلات والموزونات والأعيان غير المثلية كالحيوان والثياب وما إليها هذا والثمن نوعان النوع الأول: الثمن المسمى.النوع الثاني: ثمن المثل."

(الكتاب الأول البيوع، مقدمة في بيان الاصطلاحات الفقهية المتعلقة بالبيوع، المادة: 152الثمن ما يكون بدلا للمبيع ويتعلق بالذمة، ج:1، ص:123، ط:دار الجيل)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومنها في البدلين وهو قيام المالية حتى لا ينعقد متى عدمت المالية هكذا في محيط السرخسي ومنها في المبيع وهو أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم كبيع نتاج النتاج والحمل كذا في البدائع وأن يكون مملوكا في نفسه وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه فلا ينعقد بيع الكلإ ولو في أرض مملوكة له ولا بيع ما ليس مملوكا له وإن ملكه بعده إلا السلم، والمغضوب لو باعه الغاضب ثم ضمنه نفذ بيعه هكذا في البحر الرائق وأن يكون مالا متقوما شرعا مقدور التسليم في الحال أو في تالي الحال كذا في فتح القدير ومنها سماع المتعاقدين كلامهما وهو شرط انعقاد البيع بالإجماع فإذا قال المشتري اشتريت ولم يسمع البائع كلام المشتري لم ينعقد البيع هكذا في الفتاوى الصغرى فإن سمع أهل المجلس كلام المشتري والبائع يقول لم أسمع ولا وقر في أذني لم يصدق قضاء كذا في البحر الرائق ومنها في المكان وهو اتحاد المجلس بأن كان الإيجاب والقبول في مجلس واحد فإن اختلف لا ينعقد."

(کتاب البیوع، الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج:3، ص:2، ط:دارالفکر بیروت)

فیہ ایضا:

"وهو في الشرع عبارة عن فضل مال لا يقابله عوض في معاوضة مال بمال وهو محرم في كل مكيل وموزون بيع مع جنسه وعلته القدر والجنس ونعني بالقدر الكيل فيما يكال والوزن فيما يوزن فإذا بيع المكيل كالبر والشعير والتمر والملح أو الموزون كالذهب والفضة وما يباع بالأواقي بجنسه مثلا بمثل صح وإن تفاضل أحدهما لا يصح وجيده ورديئه سواء حتى لا يصح بيع الجيد بالرديء مما فيه ‌الربا إلا مثلا بمثل."

(کتاب البیوع، الباب التاسع فيما يجوز بيعه وما لا يجوز، الفصل السادس في تفسير الربا وأحكامه، ج:3، ص:117، ط:دارالفکربیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله لأنه يصير قمارا) لأن ‌القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي ‌القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل فی البیع، ج:6، ص:403، ط:ایچ ایم سعید کمپنی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100960

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں