بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

كپروں پر حروف تہجی/اشعار اور تصاویر پرنٹ كرنے كا حكم


سوال

عرض یہ ہے کہ میرا کپڑوں اور گازمنٹس کا کاروبار ہے،کچھ کپڑوں کے اوپر خاص انداز میں اردو تحریر لکھی جائے گی،اس میں نہ کوئی مذہبی جملہ ہے نہ سیاسی جملہ ہے کہ جس میں کسی کی تذلیل یا دل شکنی مقصود ہو،مذکورہ کاروبار کی پرنٹنگ کے پیپر ساتھ منسلک ہیں ۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ پرنٹنگ کپروں پر کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حروفِ تہجی  قابلِ احترام ہیں ؛ اس لیے ان حروف کو ایسی جگہ لکھنا جس سے ان کی بے ادبی کا اندیشہ ہو  ، درست نہیں ہے ،  فقہاء کرام نے  صراحت کے ساتھ لکھا  ہے کہ اگر تیر کے نشانہ کی جگہ (ہدف) پر ابوجہل، فرعون وغیرہ کا نام لکھاہوتو  اس پر تیر کا نشانہ لینا حروف  کی حرمت کی وجہ سے مکروہ ہے۔

پہننے کے کپڑوں پر اگر حروف تہجی پرنٹ ہوں تو  اس میں بعض صورتوں میں تو بے ادبی ہوتی ہی ہے جبکہ  بعض  صورتوں  میں ظاہراً تو بے ادبی نہیں ہوتی ، تاہم بے ادبی  کا اندیشہ موجود ہے، مثلاً: قمیص وغیرہ پر اگر حروف پرنٹ ہوں تو اگرچہ ظاہر میں بے ادبی نہیں ہے،لیکن اندیشہ ہے کہ دھلنے میں یا بعد میں پرانے ہونے کی صورت میں پھینکنے پر بے ادبی ہوگی،اور اگر شلوار یاپائجامہ/پینٹ وغیرہ پر یہ حروف ہوں تو اس میں بے ادبی ہونا ظاہر ہے؛لہٰذا ایسی صورت میں اردو تحریر/اشعار کپڑوں وغیرہ  پرنٹ کرنا  مکروہ ہے۔

البتہ اگر کپڑے پر کتابت کا مقصد  انہیں فریم وغیرہ کرا کر (جیسا کہ آیۃ الکرسی وغیرہ لکھی جاتی ہے) اونچی جگہ لگانا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

نیز منسلکہ نمونوں میں سے بعض تحریروں کے ساتھ     طوطے اور عورت کی تصویر شامل ہے، جن کو پرنٹ کرنا جائز  ہی نہیں ۔اسی طرح  پیلے رنگ والی دو تحریروں  کے بیک گراؤنڈ  میں تتلیوں کا چہرہ  واضح ہے ،ان کو  پرنٹ کرنا  بھی جائز نہیں ہے۔البتہ تتلیوں کے وہ پرنٹ جن میں چہرے کے  نقوش   واضح نہ ہوں ،ان کوتحریر کے بغیر پرنٹ کرسکتے ہیں۔

وفی الفتاوى الهندية:

"ولو كتب القرآن على الحيطان والجدران بعضهم قالوا: يرجى أن يجوز، وبعضهم كرهوا ذلك مخافة السقوط تحت أقدام الناس، كذا في فتاوى قاضي خان۔۔۔۔۔إذا كتب اسم فرعون أو كتب أبو جهل على غرض يكره أن يرموا إليه؛ لأن لتلك الحروف حرمة، كذا في السراجية۔"

(کتاب الکرایھیۃ،الباب الخامس،5/ 323،ط:رشیدیۃ)

وفي الدر المختار و حاشية ابن عابدين:

"(قوله ولبس ثوب فيه تماثيل) عدل عن قول غيره تصاوير لما في المغرب: الصورة عام في ذي الروح وغيره، والتمثال خاص بمثال ذي الروح ويأتي أن غير ذي الروح لا يكره قال القهستاني: وفيه إشعار بأنه لا تكره صورة الرأس، وفيه خلاف كما في اتخاذها كذا في المحيط، قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ"

(باب ما یفد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا،1/ 647،ط:سعید)

وفیمرقاة المفاتيح:

"وفي شرح السنة: فيه دليل على أن الصورة إذا غيرت هيئتها بأن قطعت رأسها أو ‌حلت ‌أوصالها حتى لم يبق منها إلا الأثر على شبه الصور فلا بأس به، وعلى أن موضع التصوير إذا نقض حتى تنقطع أوصاله جاز استعماله.قلت: وفيه إشارة لطيفة إلى جواز تصوير نحو الأشجار مما لا حياة فيه كما ذهب إليه الجمهور، وإن كان قد يفرق بين ما يصير مآلا وانتهاء، وبين ما يقصد تصويره ابتداء والله أعلم"

(کتاب اللباس،باب التصاویر،7/ 2855،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100782

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں