بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مٹی کوبراہ راست چھوڑ کر کپڑے پرسجدہ پڑھنے کا حکم


سوال

ہم سنی ڈائریکٹ خاک پر سجدہ کیوں نہیں کرتے ؟ ایک صاحب کا کہنا ہے خاک پر سجدہ ایک ایساعنوان ہےجو قرآن وسنت سے ثابت ہے، وجعلت لي الأرض مسجدا،اللہ نےمیرےلیےزمین کوخاک کوسجدہ گاہ قرار دیا ہے، یہ حدیثِ پیغمبر ہے، جسے علمائے اہلِ سنت نےاپنی کتابوں میں بالخصوص بخاری شریف ،نسائی ،ابن ماجہ اورسنن ابوداؤد وغیرہ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے،جب پیغمبر سجدہ کیا کرتے تھے توآپ قالین پر کپڑے پرسجدہ نہیں کرتے تھے،پیغمبر اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کودیکھاجونماز پڑھ رہے تھے اور اس صحابی کاعمامہ زمین پریشانی لگنے میں حائل ہورہاتھا، آپ علیہ السلام نے اس کی نماز ختم ہونے کا انتظار نہیں کیا، اس کی اہمیت کے پیش نظر اور اپنے ہاتھ سے اس کے عمامے کوسر کی جانب دھکیل دیا، لہذا کپڑے پر سجدہ یہ پیغمبر اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے ہٹ کرہے،السجودعلی الخمرة،اہلِ سنت کی کتب میں ایک پورا باب ہے، ٹھیکرے پرسجدہ اور پختہ مٹی پر سجدہ یہ پیغمبر اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، اور ایک دوسرے صاحب کہتے ہیں زمین پر سجدہ افضل ہے،سب کا اتفاقی مسئلہ ہے،آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مٹی پر نماز پڑھتے تھے۔ 

جواب

صورت مسئولہ میں خاک پر سجدہ کرنا جائز ہے،  چناں چہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :میرے لیے تمام زمین کو سجدہ گاہ اور پاک قرار دیاگیا ہے ، اس حدیث سے  معلوم ہوا    کہ (پاک) زمین کا ہر حصہ سجدہ گاہ اور پاک کرنے والا ہے: لہذا اس پر سجدہ اور تیمم کیا جاسکتا ہے ،اس روایت کی تفسیریہ ہے کہ خداکی عبادت اور اس کے سجدہ کے لیے کوئی جگہ مخصوص  نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کے لیے ہرپاک جگہ پر سجدہ کرنا ہے، دوسرے ادیان والوں کے برخلاف جو عبادت کی جگہ فقط کلیسا یا کنیسہ کو قرار دیتے ہیں ۔

البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خاک پر سجدہ کرنا لازم وضروری ہے اور اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی، کیوں کہ تمام زمین کو سجدہ گاہ بنانے کی حکمت تو اس امت مرحومہ کو عبادت میں آسانی فراہم کرنا ہے۔

اسی طرح یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖ وسلم قالین  یا کپڑے پر سجدہ نہیں کرتے تھے ، بہت ساری صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چٹائی  پر نماز پڑھی ہے،اور   مسجد نبوی میں نماز کے لیے چٹائیاں  بچھائی جاتی تھیں مٹی اور کنکر وغیر ہ سے  پیشانی اور  اعضاء کی حفاظت کے لیے  احادیث سے  ثابت ہے ، لہذا   چٹائی  پر نماز پڑھنا بالکل درست  ہے، اور چٹائی پر دری اور قالین کو بھی قیاس کرنا درست ہے۔

باقی جو لوگ خاص جگہ کی مٹی پر سجدہ کرتے ہیں یا اسے ضروری قراردیتے ہیں ان سے سوال یہ ہے کہ اس مٹی پر جناب نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے سجدہ کیا ہے یا نہیں ؟اگر نہیں کیا ہے توکیا ان کی نمازیں درست نہیں تھیں اور اگر درست تھیں اور یقینادرست تھی تو ہماری نمازیں بھی درست ہیں۔

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة. حدثنا محمد بن فضيل عن أبي مالك الأشجعي، عن ربعي، عن حذيفة؛ قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "‌فضلنا ‌على الناس بثلاث: جعلت صفوفنا كصفوف الملائكة،وجعلت لنا الأرض كلها مسجدا. وجعلت تربتها لنا طهورا، إذا لم نجد الماء". وذكر خصلة أخرى."

(كتاب المساجد ومواضع الصلاة ج: 2 ص: 63 ط: دار الطباعة العامرة)

ترجمہ :"حضرت حذیفہ۔ رضی اللہ عنہ۔نے فرمایا کہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ نے فرمایا ہمیں (امت محمد یہ کو) سارے لوگوں پر تین باتوں سے فضلیت دی گئی ہے ایک یہ کہ ہماری صفوں کا مرتبہ اللہ کے یہاں ملائکہ کی صفوں کا ہے، دوسرے یہ کہ ساری زمین ہماری لئے مسجد بنادی گئی اور اس کی مٹی کو ہمارے لئے پاکی کے حصول کا ذریعہ بنادیا گیا جب ہمیں پاکی نہ ملے ،اور ایک بات اور ذکرکی" ۔(تحفہ المنعم)

بذل المجہود فی حل سنن ابی داود  میں ہے:

"ثم قال الخطابي: إنما جاء قوله: "‌جعلت ‌الأرض مسجدا وطهورا" على مذهب الامتنان على هذه الأمة بأن رخص لهم في الطهور في الأرض والصلاة عليها في بقاعها، وكانت الأمم المتقدمة لا يصلون إلا في كنائسهم وبيعهم."

(باب في المواضع التي لا تجوز فيها الصلاة ج: 3 ص: 224 ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية)

صحیح بخاری  میں ہے:

"حدثنا أبو الوليد قال: حدثنا شعبة قال: حدثنا سليمان الشيباني، عن عبد الله بن شداد، عن ميمونة قالت:‌كان ‌النبي صلى الله عليه وسلم يصلي على الخمرة."

(كتاب الصلاة ، باب الصلاة على الخمرة ج: 1 ص: 86 ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ: حضرت میمونہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے چٹائی  پر  بھی نماز پڑھی ہے ۔

مصنف عبد الرزاق میں ہے :

"عن معمر سألت: الزهري، عن السجود على الطنفسة؟ قال: لا بأس بذاك كان رسول الله صلى الله عليه وسلم "يصلي ‌على ‌الخمرة".

(‌‌كتاب الصلاة ، باب الصلاة على الخمرة، والبسط ج:1 ص:394 ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ: عمر سے روایت ہے  میں نے زہری  سے چھوٹے کپڑے  پر سجد ہ کے بارے میں سوال کیا ؟ تو زہر نے کہا کہ کوئی حرج نہیں  اس لیے کہ رسو ل اللہ ﷺ کپڑے  پر نماز  پڑھتے  تھے "۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے :

"حدثنا عباد بن العوام عن الشيباني عن عبد الله بن شداد قال: حدثتني ميمونة قالت: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- (يصلي) وأنا (بحذائه) فربما أصابني ثوبه إذا سجد، وكان يصلي ‌على (‌الخمرة)".

(كتاب الصلوات ج:3 ص:129ط:دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع)

ترجمہ:"حضرت میمونہ رضی  اللہ عنھا فر ماتی ہیں ر  سو ل اللہ ﷺ  نماز پڑھتے تھے  میں  آپ کے ساتھ ہو تی تھی جب آپ سجدہ فرماتے تو    کھبی آپ کا کپڑا  مجھے لگتا تھا ، اور آپ ﷺ کپڑے پر نماز  پڑھتے تھے "۔

وفیہ ایضا:

"حدثنا (الثقفي) عن أيوب عن أنس بن سيرين عن أنس بن مالك عن أم سليم: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يصلي (في بيتها) ‌على ‌الخمرة".

(كتاب الصلوات ج:3 ص:382ط:دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع)

ترجمہ: " حضرت ام سلیم  رضی اللہ عنھا سے روایت ہے آپ ﷺ  چادر  پر نماز پڑھتے تھے "۔ 

وفیہ ایضا:

"حدثنا عبدة عن سعيد عن قتادة عن سعيد بن المسيب قال: الصلاة ‌على ‌الخمرة سنة".

(كتاب الصلوات ج:3 ص:384ط:دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع)

ترجمہ:"حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں  چادر  پر نماز پڑھنا سنت ہے "۔

شرح صحیح البخاری لابن بطال میں ہے:

"ولا خلاف بين فقهاء الأمصار فى جواز الصلاة على الخمرة إلا شىء روى عن عمر ابن عبد العزيز أنه كان لا يصلى على الخمرة، ويؤتى بتراب فيوضع على الخمرة فى موضع سجوده ويسجد عليه، وقال شعبة، عن حماد: رأيت فى بيت إبراهيم النخعى حصيرا، فقلت: أتسجد عليه؟ فقال: الأرض أحب إلى، وهذا منهما على جهة المبالغة فى الخشوع لا أنهما لم يريا السجود على الخمرة؛ لأن النبى (صلى الله عليه وسلم) قد صلى عليها، وقال سعيد بن المسيب: الصلاة على الخمرة سنة، فلا يجوز لهما مخالفة سنته عليه السلام، وإنما فعلا ذلك على الاختيار، إذ قد ثبت عنه عليه السلام، أنه كان يباشر الأرض بوجهه فى سجوده، وقد انصرف من الصلاة وعلى جبهته وأنفه أثر الماء والطين؛ فذلك كله مباح بسنته عليه السلام."

(كتاب الصلاة ، باب إذا أصاب ثوب المصلي امرأته إذا سجد ج: 2 ص: 43 ط: مكتبة الرشد)

سیرت حلبیہ میں  ہے :

"أول من ‌فرش ‌الحصر في المساجد عمر بن الخطاب، وكانت قبل ذلك مفروشة بالحصباء أي في زمنه صلى الله عليه وسلم كما تقدم".

(باب الھجرۃ الی المدینہ،103/2،ط:دار الکتب العلمیہ)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: وأن يجد حجم الأرض) تفسيره أن الساجد لو بالغ لا يتسفل رأسه أبلغ من ذلك، فصح على طنفسة وحصير وحنطة وشعير وسرير وعجلة وإن كانت على الأرض لا على ظهر حيوان كبساط مشدود بين أشجار، ولا على أرز أو ذرة إلا في جوالق أو ثلج إن لم يلبده وكان يغيب فيه وجهه ولا يجد حجمه، أو حشيش إلا إن وجد حجمه، ومن هنا يعلم الجواز على الطراحة القطن، فإن وجد الحجم جاز وإلا فلا بحر (قوله: والناس عنه غافلون) أي عن اشتراط وجود الحجم في السجود على نحو الكور والطراحة، كما يغفلون عن اشتراط السجود على الجبهة في كور العمامة."

(کتاب الصوۃ، 500/1، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411101267

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں