بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

خریداری پر دوکاندار کا انعام دینے کا حکم


سوال

میں سعودی عرب میں رہتا ہوں ،میرے گھر کے قریب ایک مارکیٹ ہے،  اس میں میں جاتا رہتا ہوں، تو ایک دن گیا، تو اس نے مجھے انعام دیا ،تو اب وہ انعام کی رقم میں   استعمال کر سکتا ہوں؟ جو چیزیں میں خریدتا ہوں وہ مشترکہ ہے۔

جواب

واضح رہے کہ  مذکورہ دوکاندار   کا کسٹمر (گاہک) کواس کی خریداری پر انعام دینے کا حکم یہ ہے کہ اگر اس میں مندرجہ ذیل شرائط پائی جائیں تو یہ معاملہ جائز ہوگا ،ورنہ جائز نہیں ہوگا:

1: مذکورہ دکان دار  نے سامان کی قیمت اتنی ہی مقرر کی ہو جو کہ مارکیٹ میں ایسے سامان کی رائج ہو، یعنی دکان دار نے اس سامان کی عام قیمت میں انعام کی بنا پر اضافہ نہ کیا ہو ، اگر دکان دار  انعامی اسکیم کی بنا پر مارکیٹ ریٹ (ثمن مثل) سے زیادہ ریٹ (قیمت) رکھے گا تو گویا خریدار (گاہک) انعام کی امید اور لالچ میں اس  دکان  سے سامان مہنگے داموں خرید رہا ہے، اس طرح یہ معاملہ جوئے (قمار) کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔

2: دکان دار  اس انعامی اسکیم کو اپنی ناقص مصنوعات کے نکالنے کا ذریعہ نہ بنائے، یعنی انعام  کا لالچ دے کر لوگوں کو اپنی ناقص مصنوعات خریدنے کی طرف راغب نہ کرے، ورنہ اس میں بھی جوئے (قمار) کی مشابہت آجائے گی۔
3: دکان سے مذکورہ سامان خریدنے والے گاہک (کسٹمر) کا مقصود اس خریداری سے واقعی  دکان  کا سامان حاصل کرنا اور اس سے نفع اٹھانا ہو، یعنی سامان مقصود ہو، موہوم انعام کا حصول مقصود نہ ہو، بلکہ انعام ایک ضمنی اور تبعی چیز ہو کہ اگر  دکان دار کی طرف سے بطور تبرع مل جائے تو ٹھیک اور نہ ملے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں، لیکن اگر گاہک کو سامان کی کوئی ضرورت نہ ہو اور وہ یہ خریداری فقط موہوم انعام حاصل کرنے کی لالچ میں کرے تو پھر یہ معاملہ جوئے (قمار) کی مشابہت اختیار کر لے گا اور ناجائز ہوگا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر مذکورہ شرائط کی مکمل رعایت رکھی جائے تو دکان  دارکا قرعہ اندازی کے ذریعہ گاہک کو انعام دینا دکان کی طرف سے تبرع اور احسان شمار ہوگا اور گاہک (کسٹمر) کے لیے اس انعام کا لینا جائز ہوگا، لیکن اگر مذکورہ شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی موجود نہ ہو تو اس صورت میں یہ معاملہ جائز نہیں ہوگا۔

باقی مذکورہ صورت میں  اگر دوکاندار نے انعام   سائل کو اس کے مستقل  کسٹمر ہونے کی وجہ سے دیا ہے تو یہ انعام اس کی اپنی ذاتی ملکیت ہے،سامان مشترکہ ہونے کی وجہ سے انعام مشترک نہیں ہوگا۔

قرآن کریم میں ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"[المائدة:90 ]

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقال قوم من أهل العلم: القمار كله من الميسر وأصله من تيسير أمر الجزور بالاجتماع على القمار فيه وهو السهام التي يجيلونها فمن خرج سهمه استحق منه ما توجبه علامة السهم فربما أخفق بعضهم حتى لايخطئ بشيء وينجح البعض فيحظى بالسهم الوافر وحقيقته تمليك المال على المخاطرة وهو أصل في بطلان عقود التمليكات الواقعة على الأخطار كالهبات والصدقات وعقود البياعات ونحوها إذا علقت على الأخطار ... ولأن معنى إيسار الجزور أن يقول من خرج سهمه استحق من الجزور كذا فكان استحقاقه لذلك السهم منه معلقاً على الحظر". 

(سورۃ المائدۃ، آیۃ:90 ، باب تحریم الخمر، ج:4، ص:127، ط: دار احیاء التراث العربی۔بیروت)

 

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:

"الجائزة: العطية إذا كانت على سبيل الإكرام يقال: أجازه أي: أعطاه جائزة. والجمع جوائز. وقريب منها التحفة فهي ما أتحفته غيرك من البر. قال صاحب اللسان:" وأصلها أن أميرا واقف عدوا وبينهما نهر فقال:من جاز هذا النهر فله كذا، فكلما جاز منهم واحد أخذ جائزة"

(حروف الجیم،ج:15،ص:76،ط:دارالسلاسل الكويت)

فتاوی ٰشامی میں ہے:

"‌وفي ‌الأقضية ‌قسم ‌الهدية وجعل هذا من أقسامها فقال: حلال من الجانبين كالإهداء للتودد."

(كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية، ج:5، ص:362، ط: سعید)

و فیه ایضاً:

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

 (کتاب الحظر و الاباحة، فصل فی البیع، ج:6، ص:403، ط: سعید) 

محیط بر ہانی میں ہے:

"القرعة ثلاث: ‌الأولى ‌لإثبات ‌حق ‌وإبطال حق آخر وإنها باطلة، كمن أعتق أحد عبديه بغير عينه، ثم تعين بالقرعة، والأخرى لطيبة النفس، وإنها جائزة كما يقرع بين النساء ليسافر بها، والثالث لإثبات حق واحد وفي مقابلة مسألة ليقر بها كل حق كالقسمة وهو جائز والله أعلم."

(‌‌كتاب القسمة، ‌‌الفصل السادس: في الخيار في القسمة، ج:7، ص:356، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609100515

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں