زید نے کاروبار شروع کرتے وقت کہا کہ میں اپنے ساتھ اس کاروبار میں اپنے اللہ کو پارٹنر کرتا ہو ں اور جو نفع ہوگا اس کا دو فیصد یا پانچ فیصد یا دس فیصد یا پچاس فیصد اللہ کو اور باقی منافع میرا ہوگا ،اب زید کہتا ہے کہ میں حساب روزانہ نہیں کرسکتا اگر میں ماہانہ تین ہزار یا پانچ هزار يا دس ہزار ماہانہ متعین کردوں تو یہ کرسکتا ہوں ؟یا فیصد کے حساب سے ہی دینا لازم ہوگا ، یعنی متعین رقم اللہ کی راہ میں دوں تو یہ جائز ہوگا؟ مطلب اول نیت اور کی تھی اب نیت بدل گئی تو اس سے گناہ کا وبال اور خیانت تو نہیں ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں زید نے کاروبار شروع کرتے وقت اگریہ کہا کہ" میں اپنے ساتھ اس کاروبار میں اپنے اللہ کو پارٹنر کرتا ہو اور جو نفع ہوگا اس کا دو فیصد یا پانچ فیصد یا دس فیصد یا پچاس فیصد اللہ کو اور باقی منافع میرا ہوگا" تو اس کی حیثیت صدقہ کی ہوگی اورصرف صدقہ کی نیت کرنے سے صدقہ لازم نہیں ہوگا ،لہذا اندازے سے صدقہ دیتے ہوئے اگر کمی بیشی ہوجائے تو اس پر گناہ نہیں ہوگا،باقی نیت کے مطابق کرنا زیادہ بہتر ہے،کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہر آدمی کی نیت سے واقف ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ولا يخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء."
(كتاب الزكوة، ج: 2، ص: 270، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603103081
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن