میں اپنے والد صاحب کی متروکہ جائیداد میں سے اپنا حصہ لینا چاہتا ہوں،جس کی بات بھائی سے ہوچکی ہے،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں بھائی کا مقروض بھی ہوں،قرضہ کاروباری ہے،جو اترتا چڑھتا رہتا ہے،اب میں بھائی سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ مجھے میرا حصہ جائیداد میں سے دیں،لیکن اپنے قرضہ کی کٹوتی اس میں سے نہ کریں،کیوں کہ وہ کاروباری معاملہ ہے،اس کا الگ سے حساب ہوگا،کیا میرا بھائی سے یہ شرط لگانادرست ہے؟ اور اس شرط کی وجہ یہ ہے کہ پہلے بھی ایک دوسری جائیداد سے مجھے بھائی نے حصہ دیتے وقت اپنا قرضہ بھی کاٹا تھا، حالاں کہ وہ بھی کاروباری قرضہ تھا۔
صورتِ مسئولہ ميں سائل کے بھائی پر لازم ہے کہ سائل کا میراث میں سے جتنا حصہ بنتا ہے وہ سائل کو دے دیں ،اس کے بعد اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کرے،البتہ سائل کے بھائی کو یقین ہو کہ میرا بھائی میراث کے حصے پر قبضہ کرنے کے بعد قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول کرے گا یا قرض ادا نہیں کرے گا،تو بھائی کا میراث کے حصے سے اپنا قرض وصول کرنا درست ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس) أي من النقود أو العروض؛ لأن النقود يجوز أخذها عندنا على ما قررناه آنفا. قال القهستاني: وفيه إيماء إلى أن له أن يأخذ من خلاف جنسه عند المجانسة في المالية، وهذا أوسع فيجوز الأخذ به وإن لم يكن مذهبنا، فإن الإنسان يعذر في العمل به عند الضرورة كما في الزاهدي. اهـ. قلت: وهذا ما قالوا إنه لا مستند له، لكن رأيت في شرح نظم الكنز للمقدسي من كتاب الحجر. قال:ونقل جد والدي لأمه الجمال الأشقر في شرحه للقدوري أن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق. والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم للعقوق:
عفاء على هذا الزمان فإنه … زمان عقوق لا زمان حقوق.
وكل رفيق فيه غير مرافق … وكل صديق فيه غير صدوق."
(كتاب السرقة، مطلب يعذر بالعمل بمذهب الغير عند الضرورة، 95/4، ط: سعید)
وفيه ايضاً:
"وأركانه: ثلاثة وارث ومورث وموروث. وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه."
(كتاب الفرائض، 758/6، ط: سعید)
الفقہ الإسلامی و ادلتہ میں ہے:
"ووافق الحنفية على رأي الشافعية فيما إذا كان المأخوذ من جنس حقه لا من غيره، والمفتى به اليوم كما قال ابن عابدين جواز الأخذ من جنس الحق أو من غيره، لفساد الذمم والمماطلة في وفاء الديون."
(القسم الثاني، الفصل الأول، المبحث الرابع، استيفاء الحق، 2858/4، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100111
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن