بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

کثرتِ احتلام اور شک میں مبتلا شخص کے لیے رہنمائی


سوال

مجھے احتلام کا مسٔلہ ہے،  اکثر سوتے ہوۓ وہم ہو جاتا ہے،  کبھی محسوس ہونے کے باوجود بھی کوئی نمی نہیں ہوتی،  کبھی قطرے آتے ہیں،  کل میں سحر سے پہلے نہا کر نماز پڑھنے کے بعد سویا تو تھوڑی دیر بعد میری آنکھ کھلی،  ویسے مجھے محسوس کچھ نہیں ہوا لیکن میں دیکھ نہ سکا کہ قطرے آۓ تھے یا نہیں،  اسی وھم کی کشمکش میں میں نے نماز پڑھی۔ میرا ذہن اس معاملے میں وہمی سا ہو گیا ہے، مجھے سمجھ نہیں آرہی میں نے ٹھیک کیا یا غلط؟ اس شک کی وجہ سے کئی دفعہ میں نماز چھوڑ چکا ہوں لیکن اب مجھے یہ ٹینشن ہے کہ اگر ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھی گئی تو کیا ہوگا؟

  نیز یہ بھی بتا دیں کہ اگر ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھی جاۓ تو کیا گناہ ہے اور کیا حکم ہے؟ کیا اسلام سے خارج ہو جاتا ہے؟ میں شادی شدہ ہوں۔  واضح رہے میں نے یہ سب شک کی بنا پر کیا ہے۔  میں ناپاکی قطرے دیکھ نہیں سکا کیونکہ نیند میں سستی کی وجہ سے اٹھ کر نہ دیکھ سکا چونکہ میں نے تھوڑی دیر پہلے ہی غسل کیا تھا،  اس وجہ سے پھر غسل کیے بغیر باقی سارا دن نمازیں پڑھیں۔ اسکے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کثرتِ احتلام کی پریشانی سے وہمی ہونے کی بجائے سمجھداری اور اعتدال سے کام لے اور اس وہم میں جو نمازیں چھوڑی ہیں، ان کی قضا کرے اور اس پر توبہ و استغفار کرے۔ سائل کے لیے چند باتیں بطورِ رہنمائی درج ذیل ہیں :

  • کثرتِ احتلام کی شکایت کے معاملے میں کسی طبیب سے رابطہ کرے۔
  • احتلام ہونے یا نہ ہونے کا شک ہورہا ہو تو سستی سے مغلوب ہونے کی بجائے اپنے کپڑوں پر احتلام کے اثرات دیکھے، اگر کپڑوں پر احتلام کے اثرات ہوں تو غسل کرے اور اگر نہ ہوں تو شک کی وجہ سے وہمی نہ بنے بلکہ یہ یقین رکھے کہ جب کپڑوں پر احتلام کے اثرات نہیں ہیں تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔

نیز واضح ہو کہ اگر کبھی غلطی سے ایسے وہم میں جنابت کی حالت  (احتلام کے بعد غسل سے پہلے کی حالت)میں نماز پڑھ لی ہو تو اس کی وجہ سے سائل دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوا۔

جو نمازیں اب تک وہم کی حالت میں پڑھ لی ہیں، اگر ان کے متعلق غالب گمان یہ ہو کہ جنابت کی حالت میں پڑھی تھیں تو  ان کا لوٹانا لازم ہے اور جن نمازوں کے متعلق صرف شک یا وہم ہے، غالب گمان یا یقین نہیں ہے کہ جنابت کی حالت میں پڑھی تھیں، تو ایسے شک یا وہم کی وجہ سے ان نمازوں کی قضا کرنا لازم نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(لا) يفترض (إن تذكر ولو مع اللذة) والإنزال (ولم ير) على رأس الذكر (بللا) إجماعا."

(۱ ؍ ۱۶۴، سعید)

و فیہ :

"(قوله: غير مكفر) أشار به إلى الرد على بعض المشايخ، حيث قال المختار أنه يكفر بالصلاة بغير طهارة لا بالصلاة بالثوب النجس وإلى غير القبلة لجواز الأخيرتين حالة العذر بخلاف الأولى فإنه لا يؤتى بها بحال فيكفر. قال الصدر الشهيد: وبه نأخذ ذكره في الخلاصة والذخيرة، وبحث فيه في الحلية بوجهين: أحدهما ما أشار إليه الشارح. ثانيهما أن الجواز بعذر لا يؤثر في عدم الإكفار بلا عذر؛ لأن الموجب للإكفار في هذه المسائل هو الاستهانة، فحيث ثبتت الاستهانة في الكل تساوى الكل في الإكفار، وحيث انتفت منها تساوت في عدمه، وذلك لأنه ليس حكم الفرض لزوم الكفر بتركه، وإلا كان كل تارك لفرض كافرا، وإنما حكمه لزوم الكفر بجحده بلا شبهة دارئة اهـ ملخصا: أي والاستخفاف في حكم الجحود."

(۱ ؍ ۸۱، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100432

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں