بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ کا اجرت لینا


سوال

میں کراچی میں کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ ہوں، یعنی افغانستان کا مال کراچی کسٹم اور پورٹ سے کلیئر کروا کر آگے بارڈر کی طرف بھیجنا ہوتا ہے ،ابھی مسئلہ یہ ہے کہ ان کنٹینرز میں مختلف اشیاء آتی ہیں، پاکستان گورنمنٹ ہم سے اس پر بینک گارنٹی لیتی ہے ،یہ گارنٹی لیتی ہے کہ جب  مال افغانستان کے بارڈر تک   پہنچ جائے تو ہمارا پیسہ کچھ دنوں میں ہمیں  واپس دیتا ہے، مثال کے طور پر کوکنگ آئل پر بیس لاکھ روپے، چینی پر ستائیس لاکھ روپے، موٹر آئل پر پچاس لاکھ روپے،کچھ آئٹمز کا زیادہ ہوتا ہے،یعنی میں کوکنگ آئل والےسے مثال کے طور پر پچاس ہزار روپیہ اجرت   لیتاہوں،چینی والےسے  ساٹھ ہزار اور جن آئٹمز کی  بینک گارنٹی زیادہ ہو اس پر زیادہ اجرت  لیتا ہوں، کیوں کہ اس میں ہمارا پیسہ زیادہ بند ہوتا ہے اور یہ سب کچھ پارٹی کو پتہ ہوتاہے کہ جس آئٹم میں کلئیرنگ ایجنٹ کا زیادہ پیسہ بند ہوتاہے اس کا اجرت   بھی زیادہ ہوتی ہے ،پہلے سے پارٹی کے ساتھ ریٹ طے ہوتاہے  ،کیا یہ اجرت   لینا جائز ہے ؟

وضاحت:ہم ان کسٹمرز کی طرف سے بینک کا ضمان بھرتے ہیں،جس کے عوض ہم پیسے وصول کرتےہیں،اور  ضمان میں دی ہوئی  رقم بھی ہمیں واپس مل جاتی ہے۔

جواب

واضح رہےکہ کاروبار کیے بغیر پیسوں پر پیسہ کمانا سود ہونے کی بناء پر حرام ہے۔
صورتِ مسئولہ میں سائل نے چوں کہ کوئی کاروبار نہیں کیا ، اور ایسا معاملہ  (اپنے کسٹمرز کی طرف سے بینک کا ضمان بھرنےکےعوض پیسے وصول کرنا اور بینک کودی ہوئی رقم بھی اسےواپس ملنا)کیا جس کی وجہ سے اسے پیسوں کے بدلے بغیر کسی عوض کے اور دیگر رقم مل رہی ہے ،لہذا مذکورہ معاملہ  سود ہونے کی بناء پر حرام اور ناجائز ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وهو في الشرع عبارة عن فضل مال لا يقابله عوض في معاوضة مال بمال وهو محرم في كل مكيل وموزون."

(كتاب البيوع، الباب التاسع، الفصل السادس،117/3 ، ط:دار الفکر )

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال:' هم سواء '. رواه مسلم."

"حضرت جابر  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے ، کھلانے والے ، لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ، اور فرمایا :’’ (گناہ میں) وہ سب برابر ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔"

(كتاب البيوع، باب الربا، الفصل الأول، 855/2، ط:المكتب الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144601102567

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں