1۔عام لوگوں کا حق کھانا اور ان کی کوئی چیز استعمال کرنا بغیر ان کی اجازت کے اس میں گناہ تو ہے لیکن ہمارے ہاں یہ مشہور ہے کہ دوستوں کا آپس میں کوئی منع نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی اشیاء بغیر اجازت کے استعمال کرسکتے ہیں، اس لئے کہ اگر آپ اجازت لیناچاہے تو ویسے ہی وہ آپ کو اس چیز کے استعمال سے منع نہیں کرتے۔
کیا یہ حکم ایساہی ہے یا منع عام ہے؟
2۔ بارہ بیع الاول میں بنیت ثواب کوئی آدمی صدقہ وخیرات کرے اسی دن کے ساتھ لزوم کا عقیدہ بھی نہ رکھتا ہو، اور وہ بھی بغیر کسی جلسے یا پروگرام وغیرہ کے ہو۔
کیا اس طرح کرنا صحیح ہے یا نہیں؟
1۔صورتِ مسئولہ میں اگر دوستوں کا آپس میں تعلق ایسا ہو کہ ایک دوسرے کی چیزیں بغیر اجازت استعمال کرنے پر ناگواری محسوس نہیں کریں گے، تو ان چیزوں کا استعمال کرنا جائز ہوگا، البتہ اگر دوستوں میں سے کوئی ایسا ہو کہ جو بلا اجازت اس کی چیزوں کے استعمال پر ناگواری کا اظہار کرتا ہو یا دوست اتنا قریبی نہ ہو جس کے ناراض ہونے کی توقع ہو تو ایسے دوستوں کی چیزوں کو صراحۃً اجازت کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں۔
قرآن کریم میں ہے:
"لَّيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الْمَرِيْضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓى اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْ بُيُوْتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اٰبَـآئِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اُمَّهَاتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخَوَاتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ عَمَّاتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ خَالَاتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْـتُـمْ مَّفَاتِحَهٝٓ اَوْ صَدِيْقِكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَـمِيْعًا اَوْ اَشْتَاتًا ۚ فَاِذَا دَخَلْتُـمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓى اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّـٰهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ۚ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّـٰهُ لَكُمُ الْاٰيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ."(سورة النور61)
ترجمه:اندھے پر اور لنگڑے پر اور بیمار پر اور خود تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے گھروں سے کھانا کھاؤ یا اپنے باپ کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے، تم پر کوئی گناہ نہیں کہ مل کر کھاؤ یا الگ الگ کھاؤ، پھر جب گھروں میں داخل ہونا چاہو تو اپنے لوگوں سے سلام کیا کرو جو اللہ کی طرف سے مبارک اور عمدہ دعا ہے، اسی طرح اللہ تمہارے لیے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو۔“
اس آیت کے تحت تفسیر مظہری میں ہے:
"أَوْ صَدِيقِكُمْ يعنى بيوت صديقكم الّذي صدقكم في المودة فانه ارضى بالتبسط في أموالهم واسر وهو يقع على الواحد والجمع كالخليط- ...عالمعنى فليس عليكم جناح ان تأكلوا من منازل هؤلاء إذا دخلتموها وان لم يحضروا من غير ان تتزودوا وتتحملوا."
(سورة النور، ج:6، ص:562، ط: مكتبة الرشدية)
القواعد الفقہیۃ میں ہے:
"الأصل أن الإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة."
(الباب الثالث القواعد الكلية في المذهب الحنفي، القاعدة: [116]الإجازة اللاحقة كالوحالة السابقة، ج:1، ص:597، ط: دار الفكر - دمشق)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويثبت) الإذن (دلالة فعبد رآه سيده يبيع ملك أجنبي) فلو ملك مولاه لم يجز حتى يأذن بالنطق،
ولو شق زق غيره فسال ما فيه وهو ساكت فإنه يكون رضا."
(كتاب المأذون، ج:6، ص:156، ط: سعيد)
2۔ واضح رہے کہ شرعی وفقہی ضابطہ ہے کہ ایسے کاموں سے اجتناب کرنا شرعاً لازم ہے جن کو عبادت وثواب کی امید کے ساتھ نہ رسول اللہ ﷺ نے بذات خود کیا ہو، اور نہ ہی صحابہ کرام وخیر القرون میں کسی نے کیا ہوں باوجود یہ کہ یہ حضرات نیکیوں کے معاملہ میں ہم سے زیادہ حریص تھے، اور اس زمانے میں اس کا وجود ممکن تھا، اور ایسا عمل جو معاشرے میں ایک بدعت کے طور پر رائج ہوچکا ہو تو ایسی صورت میں اس کا ترکہ کرنا زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے ۔
لہذا صورت مسئولہ میں بارہ ربیع الاول یا کسی بھی دن تعیین کے ساتھ ثواب سمجھ کر اس میں صدقہ کرنا یا خیرات وغیرہ کرنا کسی شرعی دلیل سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے فقہاء کرام اور مجتہدین نے بدعت میں شمار کیا ہے، لہذا دن کی تعیین کے ساتھ یہ عمل شرعاً جائز نہیں ہوگا، اگر اس سے مقصود نبی کریم ﷺ کو ثواب پہنچانا ہو تو اس کے لئے کسی مہینے یا دن کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے، بلکہ کسی بھی دن جو میسر ہو صدقہ کرکے اس کا ثواب بخش دیں۔
المدخل لابن الحاج میں ہے:
"ومن جملة ما أحدثوه من البدع مع اعتقادهم أن ذلك من أكبر العبادات وإظهار الشعائر ما يفعلونه في شهر ربيع الأول من مولد وقد احتوى على بدع ومحرمات جملة...وعمل طعاما فقط ونوى به المولد ودعا إليه الإخوان وسلم من كل ما تقدم ذكره فهو بدعة بنفس نيته فقط إذ أن ذلك زيادة في الدين وليس من عمل السلف الماضين واتباع السلف أولى بل أوجب من أن يزيد نية مخالفة لما كانوا عليه لأنهم أشد الناس اتباعا لسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وتعظيما له ولسنته صلى الله عليه وسلم ولهم قدم السبق في المبادرة إلى ذلك ولم ينقل عن أحد منهم أنه نوى المولد ونحن لهم تبع فيسعنا ما وسعهم."
(فصل في مولد النبي والبدع المحدثة فيه، ج:2، ص:10، ط: دار التراث)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607100294
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن