جنت اورجہنم کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کہا جاسکتا ہےیانہیں ؟
واضح رہے کہ خالق اورمخلوق یہ الفاظ متضادہ میں سے ہیں کہ جو خالق ہے وہ مخلوق نہیں اور جو مخلوق ہے وہ خالق نہیں،کیوں کہ خالق کہاجاتاہے کہ کسی چیز کوعدم سے وجودمیں لانے والا،اوریہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے،کہ انہوں نے ہرچیز کووجودبخشا،اوروہی ہرچیز کا خالق اور قادرمطلق ہے،اورہر چیز مخلوق ہے،قرآن کریم میں ہے کہ اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے، اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے،اوراسی طرح حدیث شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتےہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایاکہ میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے (جنت میں) ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جو نہ تو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں اور نہ کسی کان نے سنی ہیں، اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال گزرا ہے، اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو: کوئی نفس نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کر رکھی گئی ہے،جس سے معلوم ہوتاہے کہ جنت اورجہنم اوراس میں جوچیزیں چاہے نعمتیں ہوں یاسزائیں، سب کا خالق اللہ رب العزت ہے۔
اوریہی جمہور اہل سنت والجماعت کااتفاقی عقیدہ بھی ہے کہ ہرچیز کا خالق چاہے اس میں خیرہو کہ شراس کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
"اَللَّـهُ خَالِقُ كُلِّ شَىْءٍ ۖ وَّهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ وَّكِيْلٌ."(سورة الزمر62)
ترجمہ:”اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے، اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔“
اسی طرح ایک اور جگہ میں ہے:
"قُلِ اللّـٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَىْءٍ وَّهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ."(سورة الرعد16)
ترجمہ:”آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی ہرچیزکاخالق ہے،اوروہی واحداورغالب ہے۔“
ایک اورجگہ میں ہے:
" وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ."(آل عمران133)
ترجمہ:”اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑوجس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔“
اسی آیت کی تفسیرعلامہ ابن کمال پاشا نے ذکرکی ہے:
"أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ: هيِّئت لهم صفةٌ أخرى للجنة، وفيهِ دليل على أن الجنةَ مخلوقةٌ."
(سورة آل عمران، ج:2، ص"383، ط: مكتبة الإرشاد)
المعجم الکبیر(للطبرانی)میں ہے:
"حدثنا أحمد بن علي، ثنا هشام بن خالد، ثنا بقية، عن ابن جريج، عن عطاء، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لما خلق الله جنة عدن خلق فيها ما لا عين رأت، ولا أذن سمعت ولا خطر على قلب بشر، ثم قال لها: تكلمي، فقالت: قد أفلح المؤمنون."
(باب العين، عطاء، عن ابن عباس، ج:11، ص:184، ط:مكتبة ابن تيمية - القاهرة)
ترجمہ:”حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتےہیں کہ آپﷺ نے فرمایاکہ جب اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدافرمایاتواس میں وہ چیزیں بھی پیدافرمائیں جونہ آنکھوں نے دیکھیں ،نہ اس بارے میں کانوں نے سنا ،اورنہ ہی اسی کے بارے میں کسی کے دل میں خیال آیا،پھرجنت سے کہاگیاکہ آپ بات کرے،توجنت نے کہاکہ یقینا مومنین کامیاب ہوگئے۔“
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قال الله تعالى:أعددت لعبادي الصالحين ما لا عين رأت ولا أذن سمعت ولا خطر على قلب بشر. واقرؤوا إن شئتم: (فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة عين)."متفق عليه
(كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق، الفصل الأول، ج:3، ص:1063، ط:المكتب الإسلامي)
ترجمہ:”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے (جنت میں) ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جو نہ تو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں اور نہ کسی کان نے سنی ہیں، اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال گزرا ہے۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو: ”کوئی نفس نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کر رکھی گئی ہے۔ “ متفق علیہ۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"(عن أبي هريرة قال: قال رسول الله - صلى الله تعالى عليه وسلم: (قال الله تعالى: أعددت) أي: هيأت (لعبادي الصالحين)۔۔۔قال الطيبي رحمه الله: فعلى هذا الأول من القرة بمعنى البرد، والثاني من القرار،وفي قوله: أعددت دليل على أن الجنة مخلوقة، ويعضده سكنى آدم وحواء الجنة، ولمحبتها في القرآن على نهج الأسماء الغالبة اللاحقة بالأعلام، كالنجم والثريا والكتاب ونحوها."
ترجمہ:”اوراللہ تعالیٰ کا فرمان "اعدت"اس بات پر دلیل ہے کہ جنت مخلوق ہے، اور اس بات کی تائید حضرت آدمؑ اور حضرت حواء رضی اللہ عنہا کا جنت میں رہنے سے ہوتا ہے۔“
(كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق، الفصل الأول، باب صفة الجنة وأهلها، ج:9، ص:3575، ط:دار الفكر)
شرح العقیدۃ الطحاوی میں ہے:
"أما قوله :إن الجنة والنار مخلوقان، فاتفق أهل السنة علي أن الجنة والنار مخلوقتان موجودتان الآن ، ولم يزل أهل السنة علي ذلك، حتي نبغت نابغة من المعتزلة والقدرية ،فأنكرت ذلك وقالت : بل ينشئهما الله يوم القيامة ".
(العرض والحساب، ص:420، ط:المكتب الإسلامي)
شرح الفقہ الاکبر میں ہے:
"والجنة والنار مخلوقتان اليوم: أى موجودتان الآن قبل يوم القيامة، لقوله تعالى في نعت الجنة أعدت للمتقين و فى وصف النار : أعدت للكافرين ) وللحديث القدسي: (أعددت لعبادي الصالحين ما لا عين رأت ولا أذن سمعت، ولا خطر على قلب بشر و لحديث الإسراء: الجنة و أريت النار “ و هذه الصيغة موضوعة للمضي حقيقةً ، فلا وجه للعدول عنها إلى ادخلت) المجاز إلا بصريح آية أو صحيح دلالة ، و في المسألة خلاف للمعتزلة".
)ص: 118، ط: مطبع مجتبائي دهلي)
شرح المقاصد میں ہے:
"جمهور المسلمين على أن الجنة والنار مخلوقتان الآن، خلافاً لأبي هاشم والقاضي عبد الجبار و من يجرى مجراهما من المعتزلة حيث زعموا أنهما يخلقان يوم الجزاء."
(المقصد السادس فی السمعیات، فصل فی المعاد، ج:3، ص:358، ط: دار الکتب العلمیة)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144606100622
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن