میرا نکاح 2 جولائی 2024ء کو ہوا،نکاح کے وقت حق مہر معجل لکھوا دیا تھا،اگلے دن رخصتی ہوئی،میں نے حق مہر کی رقم کے بدلے گولڈ کی چیز دے دی،جب میں قریب گیا تو مجھے پتہ چلا لڑکی ناپاکی کی حالت میں ہے،اور نکاح بھی ناپاکی کی حالت میں ہوا،لڑکی والوں نے اس بات کو چھپایا یعنی ہمارے ساتھ دھوکا کیا، کچھ دن گزرنے کے بعد جب میں قریب گیا، تو اس نے منع کردیا،ایک مہینہ گزرنے کے بعد بھی لڑکی صحیح نہیں ہوئی تو میں نے حق مہر کے بدلے جو گولڈ کی چیز دی تھی،وہ واپس لے لی،اب پانچ مہینے گزرچانے کے بعد بھی جب وہ نہیں مان رہی تو میں نے اس سے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
یہ تمام صورت حال جو میں نے بتائی ہے،اس کے بعد جب میں طلاق دوں گا تو کیا مجھے حق مہر ادا کرنا ہوگا؟
واضح رہےکہ ابھی تک ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوسکا،کیوں کہ میری بیوی منع کررہی ہے۔
صورت مسئولہ میں جب رخصتی کے بعد خلوت صحیحہ (کامل خلوت)ہوگئی تو اب طلاق کی صورت میں بیوی کو پورا حق مہر دینا ہوگا،چاہے جماع کیا ہو یا نہ کیا ہو۔
واضح رہے کہ عورت پورا مہینہ ایام (حیض) کی حالت میں نہیں رہ سکتی، اور ایام سے پاک ہونے کے بعد جماع پر قدرت تھی تو یہ مدت ِ خلوت شرعاً خلوت صحیحہ شمارہوگی، اگرچہ کسی بھی وجہ سے جماع نہ ہوا ہو۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(والخلوة) مبتدأ خبره قوله الآتي كالوطء۔۔۔في ثبوت النسب) ولو من المجبوب (و) في (تأكد المهر) المسمى (و) مهر المثل بلا تسمية و (النفقة والسكنى والعدة وحرمة نكاح أختها."
(كتاب النكاح، باب المهر، ج:3، ص:114،119، ط:سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق."
(كتاب النكاح وفيه أحد عشر بابا، الباب السابع في المهر، الفصل الثاني فيما يتأكد به المهر والمتعة، ج:1، ص:303، ط:دارالفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144606101216
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن