بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا مرحومین کے لیے ہر روز ختم کر سکتے ہیں ؟


سوال

 کیا مرحومین کے لئے  ہر روزختم کر سکتے ہیں ؟اور کیا کیا پڑھنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ مرحومین کے لیے ہرروز تلاوت کرنا مستحسن عمل ہے،اورجہاں تک یہ بات ہے کے کیا پڑھنا چاہیے تو   قرآنِ کریم کی تلاوت، ذکر و اذکار نفل نماز،  روزہ، طواف، عمرہ و  حج،  قربانی، نیز غرباء ومساکین پر صدقہ خیرات کرکے مرحومین کو ثواب پہنچایاجاسکتاہے،  اور  مرحومین تک نہ صرف  اس کا  ثواب پہنچتاہے،  بلکہ  پڑھنے والوں یا صدقہ کرنے والوں کو بھی برابر ثواب ملتا ہے، اور کسی کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے۔

لہذا آپ اپنے مرحومین  کو  ثواب پہنچانے کے لیے ان اعمال میں سے جو میسر ہوں کرسکتے ہیں،ان کی طرف سے غرباء اور مساکین پر صدقہ کیا کرے، الغرض ان تمام نیک کاموں کا ثواب مرحومین  کو پہنچایا جاسکتا ہے، بہتر ہے کہ ان کی طرف سے ایسا صدقہ یا نیک عمل کیا جائے جس کا اجر جاری رہے، مثلًا ان کے ایصالِ ثواب کے لیے کنواں کھدوا دیں، مسجد یا مدرسے کی تعمیر میں  حصہ لے لیں، مسجد یا مدرسے میں قرآن شریف یا دینی کتابیں وقف کردیں، یا پھل دار سایہ دار درخت لگادیں، وغیرہ وغیرہ۔

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"و عن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال: الماء. فحفر بئراً وقال: هذه لأم سعد. رواه أبو داود والنسائي."

ترجمہ:حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے، ان کے لیے کیا  صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: پانی،  انہوں نے ایک کنواں کھدوایا، اور  کہا: یہ  (کنواں) سعد کی والدہ کے لیے ہے۔

(کتاب الزکات، باب فضل الصدقۃ، الفصل الثانی، ج:1، ص:597، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

صحيح مسلم  میں ہے:

"عن أبي هريرة، أنّ رجلاً قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أبي مات وترك مالاً، ولم يوص، فهل يكفر عنه أن أتصدق عنه؟ قال: نعم."

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا : میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے اپنے پیچھے مال چھوڑا ہے، لیکن کوئی وصیت نہیں کی، اگر میں ان کی جانب سے صدقہ خیرات کردوں، کیا ان کے گناہوں کے لیے معافی کا ذریعہ ہوجائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا: ہاں! تمہارے صدقات سے ان کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔

(كتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلى الميت، ج:3، ص:1254، ط:دار إحياء التراث العربي ببيروت،)

سنن أبي داود میں ہے:

"عن أسيد بن علي بن عبيد، مولى بني ساعدة عن أبيه، عن أبي أسيد مالك بن ربيعة الساعدي، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذ جاء ه رجل من بني سلمة، فقال: يا رسول الله، هل بقي من بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال: نعم الصلاة عليهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما، وإكرام صديقهما ."

ترجمه:حضر ت ابواُسید مالک بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس موجود تھے کہ اتنے میں بنو سلمہ کا ایک شخص آیا اور اُس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سےدریافت کیا:یا رسول اللہ! میرے والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی کوئی صورت ہے، جس کو میں اختیار کروں؟ فرمایا: ہاں! ان کے لیے دُعا و اِستغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت کو نافذ کرنا، ان کے متعلقین سے صلہ رحمی کرنا، اور ان کے دوستوں سے عزّت کے ساتھ پیش آنا۔

(كتاب الادب، باب في برالوالدين، ج:7، ص؛456، ط:دار الرسالة العالمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102514

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں