1:۔میری والدہ مرحومہ کاناناکی زندگی میں انتقال ہوگیاتھا،اب کیانانا کی وراثت میں میراکوئی شرعی حصہ ہےیانہیں؟
2:۔میری والدہ مرحومہ کی جائیدادمیں سے میرےناناکو1/6 حصہ ملاتھا،اب ناناکابھی انتقال ہوگیاہےاوران کےورثاء میں ماموں اورخالائیں ہیں ۔
اب وہ حصہ جومیری والدہ کی طرف سے ناناکوملاتھاکیاوہ میں واپس لےسکتاہوں یانہیں؟
1. واضح رہے کہ اگرکسی کاانتقال ہوجائےتواس کی وراثت اس کےورثاء میں تقسیم ہوتی ہے،جس کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ سب سےپہلےان ورثاءکوملتی ہےجن کےحصےقرآن وحدیث میں متعین ہیں، جس کو اصطلاح میں ”ذوی الفروض“کہاجاتاہے، اس کےبعدان ورثاءکوملتی ہےجن کےحصے شرعی طورپرمتعین نہیں ہیں بلکہ ذوی الفروض کو دینے کےبعد جتنی وراثت بچ جائے وہ سب ان کودی جاتی ہے، جس کو اصطلاح میں ”عصبہ“ کہاجاتاہے، اور اگر ذوی الفروض اور عصبہ نہ ہوں تواس کےبعد”ذوی الارحام“ کو مرحوم کی وراثت دی جاتی ہے۔
لہذاصورت مسئولہ میں چوں کہ آپ کےماموں اورخالائیں آپ کےناناکےذوی الفروض ہیں،اور آپ ذوی الارحام میں سے ہیں جب کہ شرعی طور پر ذوی الفروض اور عصبہ کے ہوتے ہوئے ذوی الارحام کوکچھ نہیں ملتا، لہذاآپ کوناناکےوراثت میں سے کچھ نہیں ملےگا۔
2. اسی طرح آپ کی والدہ مرحومہ کی وراثت میں سے جوحصہ آپ کےناناکوملاتھاتوان کےانتقال کےبعدوہ حصہ اوردیگرتمام جائیداد ان کےورثاءمیں ہی تقسیم ہوگی، اب آپ کے لیے اس حصے کی واپسی کا مطالبہ کرناشرعاًدرست نہیں ہے، ہاں اگرنانا کے شرعی ورثاء اپنی خوشی اوردلی رضامندی سے آپ کو کچھ دیناچاہیں توشرعاًاس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"الفرائض جمع فريضة من الفرض وهو في اللغة التقدير والقطع والبيان وفي الشرع ما ثبت بدليل مقطوع به.
وهم كل من ليس له سهم مقدر ويأخذ ما بقي من سهام ذوي الفروض وإذا انفرد أخذ جميع المال.
وذوو الأرحام كل قريب ليس بذي سهم ولا عصبة."
(كتاب الفرائض، الباب الأول في تعريف الفرائض، الباب الثالث في العصبات، الباب العاشر في ذوي الأرحام، ج:6، ص:446/ 451/ 458، ط:دارالفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603103142
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن