بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا پھوپھی کی پوتی سے نکاح کرنا جائز ہے جب کہ اس بات کااحتمال ہوکہ پھوپھی نے بھتیجے کو دودھ پلایا ہے؟


سوال

جب میں دودن کاتھاتومیری والدہ کاانتقال ہوگیا،پھراس کے بعدمیری پھوپھی نے مجھے لےپالک بنایااورمیری پرورش کی ۔

اب میرا اس پھوپھی کی پوتی سے رشتہ کررہےہیں،جب  کہ میری پھوپھی کاکہناہے کہ انہوں نے کوشش کی تھی دودھ پلانے کی مگرانہیں معلوم نہیں  کہ دودھ اتراتھایانہیں،جب کہ میری پھوپھی کی اولاد کہہ رہی  ہے کہ میری پھوپھی نے مجھے دودھ نہیں پلایا،اور یہ  اس لیے کہ  مجھے گودلینے سے آٹھ سال پہلے میری پھوپھی کے ہاں بچہ پیداہواتھا،اس کے  بعد ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔

اب سوال یہ ہے کہ کیامیرانکاح میری پھوپھی کی پوتی سے کرناجائز ہے یاناجائز؟

جواب

  اگر  آپ کی پھوپھی کو  شک  ہے  اور  دودھ  پلانا یقینی نہیں ہے تو  شک  کی وجہ سے حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوئی اور  نکاح کرنا جائز ہے،البتہ  چوں کہ اس بات کااحتمال ہے کہ آپ نے  دودھ پیاہوگا،لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ آپ اپنی پھوپھی کی  پوتی سے نکاح نہ کریں،کیوں کہ اگرآپ نے ان کادودھ پیاہوتوپھریہ آپ کی رضاعی بھتیجی  ہے ،اورشریعت میں  رضاعی بھتیجی  سے بھی  نکاح کرناناجائز اورحرام ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت امرأة من لبنه رضيعا فالكل إخوة الرضيع وأخواته وأولادهم أولاد إخوته وأخواته وأخو الرجل عمه وأخته عمته وأخو المرضعة خاله وأختها خالته وكذا في الجد والجدة۔

رجل تزوج امرأة فولدت منه ولدا فأرضعت ولدها ثم يبس لبنهاثم در لها لبن بعد ذلك فأرضعت صبيا كان لهذا الصبي أن يتزوج أولاد هذا الرجل من غير المرضعة كذا في فتاوى قاضي خان۔

المرأة إذا جعلت ثديها في فم الصبي ولا تعرف أمص اللبن أم لا ففي القضاء لا تثبت الحرمة بالشك وفي الاحتياط تثبت."

(كتاب الرضاع، ج:1، ص:343،344، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الفتح: لو أدخلت الحلمة في في الصبي وشكت في الارتضاع لاتثبت الحرمة بالشك."

(كتاب النكاح، باب الإرضاع، ج:3، ص:212، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101755

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں