بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد عدت لازم ہے


سوال

میں تقریباًدوسال سے زیادہ اپنے شوہرسے دورہوں،وہ بیرون ملک میں ہے،اورمیں پاکستان میں ہوں،اس دوران ہماری کوئی ملاقات نہیں ہوئی،اب وہ شوہرمجھے طلاق دے رہاہے،کیامجھ پرعدت گزارنالازم ہے؟

میں اپناخرچہ خوداٹھاتی ہوں،اورمیں نوکری کرتی ہوں،کیامیں نوکری کی وجہ سے گھرسے نکل سکتی ہوں؟کیوں کہ میرے اخراجات میں ہی اٹھارہی ہوں۔

 

جواب

واضح رہے کہ عدت کاوجوب نکاح ختم ہونے کے بعد ہوتاہے،میاں بیوی چاہے جتنی مدت علیحدہ رہیں جب تک شوہرطلاق نہ دےبیوی اس کے نکاح میں رہتی ہے،طلاق دینےکے بعدہی عورت مطلقہ شمارہوتی ہے،طلاق سے قبل علیحدگی کازمانہ عدت میں شمار نہیں ہوتا،اورنہ ہی اس علیحدگی سے عدت پرکوئی اثرپڑتاہے،لہذااگرنکاح کے بعد خلوت صحیحہ ہوچکی ہےتوطلاق کے بعد سائلہ پرعدت گزارنالازم ہےاگرچہ طلاق سے قبل دوسال سے میاں بیوی علیحدہ رہ  رہے ہوں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية۔۔۔."

(كتاب الطلاق، ‌‌باب العدة، ج:3، ص:505، ط:سعيد)

عدت کے دوران مطلقہ کاخرچہ اس کے شوہر پرلازم ہے،اورعورت کادوران عدت بغیرشدید ضرورت کے گھرسے باہرجاناجائز نہیں ہے،لہذاسائلہ کوچاہیے کہ اپنی ملازمت سے رخصت لیکرعدت کے ایام گھرمیں گزارے اورعدت میں سوائے شدید مجبوری کے گھرسے نکلنا،ملازمت کےلیے جاناجائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

(باب العدة، فصل في الحداد، ج:3، ص:536، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144511102245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں