بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا وراثت تقسیم ہونے سے پہلے اپنا حصہ کسی کو ہبہ کرنا شرعاً درست ہے؟


سوال

اگر تمام ورثاء میراث نہ لیں بلکہ تمام ورثاء کسی ایک وارث یاغیر وارث کو دینے پر سب راضی ہوں تو کیا اس طرح کسی کو میراث دینا جائز ہے یامیراث کو تقسیم کرنا ضروری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ترکہ کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا ترکہ میں سے اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض کسی دوسرے وارث یا ورثاء کے حق میں دست بردار ہوجانا شرعاً معتبر نہیں،ایسا کرنے سے اس کا حق ختم نہیں ہوتا،اسی طرح اگر ترکہ میں کئی ورثاء کا حق ہو،اوروہ ترکہ ان سب میں مشترک ہو تو کسی وارث کا تقسیم سے پہلے اپنا حصہ دوسروں کو دینے سے ہبہ نافذ نہیں ہوتا،البتہ ترکہ کی تقسیم کرکے اپنا حصہ وصول کرنے کے بعد اپنا حصہ کسی وارث یا غیر وارث کو ہبہ کرنا شرعاً جائز ہوگا ،کیوں کہ حق وراثت اضطراری حق ہے جو ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا۔

تکملہ درالمختار میں ہے:

"الإرث الجبري لايسقط بالإسقاط."

(ج:7، ص:505، ط:سعيد)

الاشباہ النظائر میں ہے:

"لو قال الوارث: ‌تركت ‌حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك."

(‌‌الفن الثالث: الجمع والفرق، ‌‌ما يقبل الإسقاط من الحقوق وما لا يقبله، وبيان أن الساقط لا يعود، ص:272، ط:دار الكتب العلمية)

 لہذا صورت مسئولہ میں تقسیم سے پہلے اپنا حصہ کسی وارث یا غیر وارث کودینا شرعاً معتبر نہیں  ہے،لہذا ترکہ پہلے تمام ورثاء میں تقسیم کردیاجائے یاکم ازکم ہر ایک وارث کے حصہ کا تعیین کرکے اسے ترکہ میں سے کچھ دے دیا جائے پھر وہ اپنا بقیہ یا تمام حصہ دوسرے کے ہبہ کرسکتا ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606100317

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں