میری شادی (مسمی محمد عمر فاروق) عرصہ ساڑھے تین سال قبل ہوئی ہے، میری اس بیوی سے ایک چھوٹی بچی بھی ہے، ابتدائی زمانے میں حالات بڑے سازگار اور پرامن تھے، کچھ عرصہ گزرنے کے بعد میری اہلیہ اور میری بہن کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتوں پر حالات کشیدہ ہونے لگے ،میری والدہ میری بہن کو کافی سمجھاتی رہیں تاکہ صلح صفائی ہو جائے، پھر اس کی شادی ہو گئی لیکن حالات بننے کے بجائے بگڑتے رہے، جس سے میرے سسرال اور میرے خاندان والوں کے درمیان بھی فاصلے بڑھنے لگے، میری بہن اور میری والدہ کا مسلسل یہ مطالبہ تھا کہ میں یعنی محمد عمر فاروق اپنی بیوی کو طلاق دیدے، تب ہم اس سے بات کریں گے اور ہمشیرہ بھی یہی کہنے لگی کہ طلاق دو گے تو تب میں اپنے والدین کے گھر آؤں گی ورنہ تاحیات اس گھر میں واپس نہیں آؤں گی۔
میرے ابو اور امی پہلے کافی معاملہ سلجھاتے رہے آخرکار والدین نے بھی میری ہمشیرہ کی جانبداری اور طرفداری شروع کر دی،انہوں نے بھی مجھ سے طلاق کا مطالبہ شروع کر دیا جس سے میری اہلیہ بھی بہت پریشان ہونے لگی ،میرے والدین نے مجھے طلاق دینے کے لیے ڈرانا اور دھمکانا شروع کر دیا، اس وجہ سے میں ہر وقت پریشان اور غمگیں رہنے لگا ،میری ہمشیرہ سے جب بھی اہلیہ کے متعلق بات ہوتی تو وہ بےہوش ہو جاتی ،میرے والد صاحب نے کئی بار مجھے فون پر دھمکی دی کہ اگر تو نے بیوی کو طلاق نہ دی تو ہمارا تعلق آپ سے ختم ہو جائے گا،اور میں ایبٹ آباد والا مکان بیچ کر آبائی گاؤں چلا جاؤں گا اور آپ کے ساتھ تاحیات بول چال بند کر دوں گا ۔
واضح رہے کہ میں سعودی عرب میں کام کرتا ہوں اور ان سب لوگوں کو اپنے پاس بلا کر عمرہ بھی کروایا ،اپنی والدہ کو حرم شریف لے جا کر وہاں حرم پاک میں بھی بہت سمجھایا لیکن میری والدہ بجائے بات سمجھنے اور قبول کرنے کے مجھ پر دباؤ ڈالتی تھی،میری والدہ نے مجھے دماغی طور پر بہت مجبور کیا وہ اس طرح کہ جب بھی مجھے دباؤ کے باوجود طلاق پر آمادہ نہ پاتی تو وہ بےہوش ہو جاتیں اور ان کے ناک سے خون جاری ہو جاتا تھا، مجھے ڈر لگتا کہ اس طرح فوت نہ ہو جائیں، اسی طرح میرا بھائی، والدین اور پورا خاندان بھی مجھے الزام دیتا کہ تمہاری وجہ سے والدہ کا نقصان ہو گا یا خدا نخواستہ فوت ہو جائیں گےتو آپ ذمہ دار ہوں گے،ان پیچیدہ حالات کے پیش نظر ایک دن میں گھر آیا تومیرے بھائی نے ایک عام چھوٹے سے ورق پر تین طلاقیں لکھ کر مجھے دستخط کے لیے کہا،والدہ بھی وہاں موجود تھیں مجھے یہ علم تھا کہ یہ تحریر طلاق ہی کے متعلق ہو گی،میں نے نہ چاہتے ہوئے اس پر دستخط کر دیےاس ڈر اور خوف سے کہ میرے والدین کو کچھ ہو نہ جائے اور میرے لیے ہمیشہ طعنہ رہے گا۔
اس تحریر کو میں نے غور اور دھیان سے نہیں پڑھا بلکہ سرسری پڑھنے کے بعد دستخط کر دیے اس کے بعد اس تحریر کو اپنے ملک پاکستان بھیج دیا گیا،مجھے بعد میں پتہ چلا کہ اس میں تین طلاقوں کا ذکر تھا ،میں نے اپنی زبان سے کسی کے سامنے کبھی بھی طلاق کے الفاظ ادا نہیں کیے،میری اہلیہ پہلے ہی سے والدین کے گھر تھیں ۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ ایسی صورت میں طلاق واقع ہو جاتی ہے یا نہیں ؟
کیا یہ جبر و اکراہ معتبر ہے یا نہیں ؟
صورت مسئولہ میں جب سائل نےاس ورقہ پردستخط کیاجس میں تین طلاقوں کاتذکرہ تھاتواس طرح کرنے سے سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ،لہذا بیوی اپنے شوہرپرحرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، نکاح ختم ہوچکا ہے،اب رجوع کی یادوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں ، عورت عدت (تین ماہواریاں، اگر حمل نہ ہو، حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کے لئے آزاد ہوگی۔
واضح رہے کہ صرف ذہنی دباؤ اکراہ کے تحت داخل نہیں ہے،جب تک قتل یاقیدکرنے کی دھمکی نہ دی جائے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية".
(كتاب الطلاق، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:473، ط:دارالفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل."
(كتاب الطلاق، مطلب في المسائل التي تصح مع الإكراه، ج:3، ص:336، ط:سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الطلاق، الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية، ج:1، ص:389، ط:دارالفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601101976
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن