1-کیا گھر کے سربراہ اگر سب کی طرف سے ایک بکرا/بکری ذبح کردے تو سب کی طرف سے قربانی کافی ہوجاتی ہے۔
2-بعض حضرات کہتے ہیں کہ گھر کے سربرا ہ کی قربانی گھر میں سب افراد کے لیے کافی ہوجاتی ہے ۔
3- گھر کے سربرا ہ کی قربانی گھر کے سب افراد کی طرف سے کفایت کرجاتی ہے اس بارے میں ایک حدیث پیش کرتے ہیں جس میں ہے کہ" حضورِ اقدس ﷺ کے زمانے میں ایک شخص اپنی طرف سےاور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا "ایسی کوئی حدیث ہے ؟ اگر ہےتواس کا کیا مطلب ہے؟
4-اہلِ حدیث اہلِ سنت کے محلے میں زور وشور سے چوتھے دن جو قربانی کرتے ہیں اس کی کیا حیثیت ہے؟ تفصیل سے وضاحت فرمادیں۔
1-2ہر صاحبِ نصاب عاقل بالغ مسلمان کے ذمہ قربانی کرنا واجب ہے ، اگر ایک گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہوں تو ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی، بلکہ گھر میں رہنے والے ہر صاحبِ نصاب شخص پر الگ الگ قربانی کرنا لازم ہوگی، کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر صاحبِ نصاب پر مستقل علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ قربانی ایک عبادت ہے، لہٰذا دیگر عبادات (نماز ، روزہ، حج، زکاۃ ) کی طرح قربانی بھی ہر مکلف کے ذمہ الگ الگ واجب ہوگی،اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا عمل مبارک بھی یہ تھا کہ آپ ﷺ اپنی قربانی الگ فرمایا کرتے تھے اور ازواجِ مطہرات کی طرف سے الگ قربانی فرمایا کرتے تھے، چناں چہ اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہے۔
3-مذکورہ حدیث کتب احادیث میں "سنن الترمذی "میں ہےاسی طرح سنن ابن ماجہ بھی اس طرح کی ایک حدیث ملتی ہے ،سنن الترمذی کی حدیث میں اس بات کاذکر ہے" کہ حضورِ اقدس ﷺ کے زمانے میں ایک شخص اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا اور اسی بکری سے خود بھی کھاتا اور دوسروں کو بھی کھلاتا تھا" امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ حدیث ثواب میں شرکت پر محمول ہے، یعنی اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرے اور اس کے ثواب میں اپنے ساتھ سارے گھر والوں کو شریک کر لے تو یہ جائز ہے، اس کی نظیر یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مینڈھا اپنی طرف سے قربان فرمایا اور دوسرا مینڈھا قربان کر کے فرمایا : "هذا عن من لم یضح من أمتي"، یعنی میں یہ قربانی اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے کر رہا ہوں جو قربانی نہ کرسکیں، لہٰذا جس طرح اس حدیث سے یہ مطلب لینا قطعاً درست نہیں ہوگا کہ چوں کہ آپ ﷺ نے اپنی امت کی طرف سے ایک مینڈھا قربان فرمادیا؛ اس لیے اب امت کے ذمہ سے قربانی ساقط ہوگئی، بلکہ مطلب یہ ہوگا کہ آپﷺ نے ثواب میں ساری امت کو اپنے ساتھ شریک کرلیا۔ اسی طرح ترمذی شریف میں مذکور حدیث سے بھی یہ مطلب لینا درست نہیں کہ ایک صاحب نصاب آدمی ایک بکری کی قربانی اپنی طرف سے اور گھر کے دیگر صاحب نصاب افراد کی طرف سے کرتا تھا اور سب کے ذمہ سے واجب قربانی ساقط ہوجاتی تھی، بلکہ حدیث شریف کا صحیح کا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں غربت عام ہونے کی وجہ سے بعض اوقات ایک گھر کے اندر ایک ہی شخص صاحبِ نصاب ہوتا تھا، اس وجہ سے پورے گھر میں ایک ہی شخص کے ذمہ قربانی واجب ہوتی تھی، باقی لوگوں کے ذمہ صاحبِ نصاب نہ ہونے کی وجہ سے قربانی واجب ہی نہ ہوتی تھی؛ اس لیے پورے گھر میں سے صرف ایک ہی آدمی قربانی کیا کرتا تھا، لیکن قربانی کرنے والا اپنے گھر کے تمام افراد کو اس قربانی کے ثواب میں شریک کرلیتا تھا۔
اس کے علاوہ حنفیہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر ایک بکری پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوتی تو جن حدیثوں میں بڑے جانور (گائے، اونٹ، وغیرہ) کو سات کی طرف سے متعین کیا گیا ہے، اس کے کیا معنی ہوں گے؟ کیوں کہ نصوص کی روشنی میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ ایک بکری گائے کے ساتویں حصے کے برابر ہے، لہٰذا اگر ایک گائے میں آٹھ آدمی شریک ہوجائیں تو بمقتضائے تحدید ’’ البقرة عن سبعة‘‘کسی کی بھی قربانی جائز نہیں ہوگی، ورنہ تحدید بے کار ہو جائے گی ، جب کہ اگر ایک گھر میں مثلاً دس افراد صاحبِ نصاب ہوں، تب بھی ایک بکری گھر کے تمام دس افراد کی طرف سے کافی ہوجائے اور سب کی قربانی ادا ہو جائے تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک بکری تو دس افراد کی طرف سے کافی ہو جائے اور ایک گائے آٹھ افراد کی طرف سے کافی نہ ہو،اور اگر یہ کہا جائے کہ گائے کا ساتواں حصہ سارے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوجائے گا تو پھر تو ایک گائے کے اندر صرف سات افراد نہیں، بلکہ ساٹھ، ستر افراد کی قربانی ہو سکے گی جو کہ واضح طور پر نصوص کے خلاف ہے۔
4-حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابنِ عمر اور حضرت انس بن مالک حضرت ابوہریرۃ ، جیسے جلیل القدر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں لہذا چوتھے دن (یعنی ۱۳ ذی الحجہ کے دن) قربانی کرنا معتبر نہیں ہے،تفصیلی دلائل اور ان کے تجزیے کے لیے حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی کتاب :"مسئلہ قربانی مع رسالہ سیف یزدانی "،اور مولانا امین صفدر اوکاڑویؒ کی کتاب :"قربانی اور اہل حدیث"کا مطالعہ فرمائیں۔
الدر المختارمیں ہے :
"و شرائطها الإسلام والإقامة و الیسار الذي یتعلق به وجوب ( صدقة الفطر ) ... (لا الذکورۃ فتجب علی الأنثى)."
قال في الرد:
(قوله: و شرائطها) أي شرائط وجوبھا، ولم یذکر الحریة ... و لا العقل والبلوغ لما فیھما من الخلاف ... (قوله: والیسار) بأن ملك مائتي درهم أو عرضًا یساویها غیر مسکنه و ثیاب اللبس أو متاع یحتاجه إلى أن یذبح الأضحیة و لو له عقار یستغله فقیل: تلزم لو قیمته نصابًا ... فمتى فضل نصاب تلزمه و لو العقار وقفًا، فإن واجب له فی أیامھا نصاب تلزم و صاحب الثیاب الأربعة لو ساوی الرابع نصابًا غنی و ثلاثة فلا، والمرأۃ موسرۃ بالمعجل لو الزوج ملیًّا وبالمؤجل لا."
(کتاب الأضحية، ج:6، ص:312، ط:دار الفكر - بيروت)
سنن الترمذيمیں ہے:
"1505 - حدثنا يحيى بن موسى قال: حدثنا أبو بكر الحنفي قال: حدثنا الضحاك بن عثمان قال: حدثني عمارة بن عبد الله قال: سمعت عطاء بن يسار يقول: سألت أبا أيوب الأنصاري: كيف كانت الضحايا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: «كان الرجل يضحي بالشاة عنه وعن أهل بيته، فيأكلون ويطعمون حتى تباهى الناس، فصارت كما ترى»: هذا حديث حسن صحيح وعمارة بن عبد الله مديني، وقد روى عنه مالك بن أنس والعمل على هذا عند بعض أهل العلم، وهو قول أحمد، وإسحاق، واحتجا بحديث النبي صلى الله عليه وسلم أنه ضحى بكبش، فقال: «هذا عمن لم يضح من أمتي»، وقال بعض أهل العلم: لا تجزي الشاة إلا عن نفس واحدة، وهو قول عبد الله بن المبارك، وغيره من أهل العلم."
(أبواب الأضاحي عن رسول ﷺ، باب ما جاء أن الشاة الواحدة تجزي عن أهل البيت، ج:3، ص:169، ط:دار الغرب الإسلامي - بيروت)
سنن ابن ماجه میں ہے:
"3125 - حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا معاذ بن معاذ، عن ابن عون، قال أنبأنا أبو رملة، عن مخنف بن سليم، قال: كنا وقوفا عند النبي صلى الله عليه وسلم بعرفة فقال: «يا أيها الناس إن على كل أهل بيت في كل عام أضحية وعتيرة، أتدرون ما العتيرة؟ هي التي يسميها الناس الرجبية."
(کتاب الأضاحي، باب الأضاحي، واجبة هي أم لا، ج:2، ص:1045، ط:دار إحياء الكتب العربية)
بذل المجهود في حل سنن أبي داودمیں ہے:
"فإن قيل: أليس أنه روي "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين، أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يضحي من أمته"، فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام.
فالجواب أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب، وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته، لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم."
(کتاب الضحایا، باب: في الشاة يضحى بها عن جماعة، ج:13، ص:10، ط:دارالکتب العلمیة)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما قدره فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.
فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يذبح من أمته فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟
(فالجواب) أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته، لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء.
وقال مالك - رحمه الله -: يجزي ذلك عن أهل بيت واحد - وإن زادوا على سبعة -، ولا يجزي عن أهل بيتين - وإن كانوا أقل من سبعة -، والصحيح قول العامة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «البدنة تجزي عن سبعة والبقرة تجزي عن سبعة». وعن جابر - رضي الله عنه - قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة من غير فصل بين أهل بيت وبيتين»؛ ولأن القياس يأبى جوازها عن أكثر من واحد؛ لما ذكرنا أن القربة في الذبح، وأنه فعل واحد لا يتجزأ؛ لكنا تركنا القياس بالخبر المقتضي للجواز عن سبعة مطلقاً فيعمل بالقياس فيما وراءه؛ لأن البقرة بمنزلة سبع شياه، ثم جازت التضحية بسبع شياه عن سبعة سواء كانوا من أهل بيت أو بيتين فكذا البقرة."
(کتاب التضحیة، فصل في محل إقامة الواجب في الأضحية، ج:5، ص:70، ط:دار الكتب العلمية)
صحيح البخاريمیں ہے:
5228 - حدثنا مسدد: حدثنا سفيان، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة رضي الله عنها:
"أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليها، وحاضت بسرف، قبل أن تدخل مكة، وهي تبكي، فقال: (ما لك أنفست). قالت: نعم، قال: (إن هذا أمر كتبه الله على بنات آدم، فاقضي ما يقضي الحاج، غير أن لا تطوفي بالبيت). فلما كنا بمنى، أتيت بلحم بقر، فقلت: ما هذا؟ قالوا: ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أزواجه بالبقر."
(کتاب الأضاحي، باب: الأضحية للمسافر والنساء، ج:5، ص:2110، ط:دار ابن كثير)
إعلاء السننمیں ہے:
"٥٥٨٣- مالك عن نافع أن عبد الله بن عمر قال : الأضحى يومان بعد يومالأضحى وقال مالك: إنه بلغه عن على بن أبى طالب مثل ذلك (موطأ ص۱۸۹:۱۸۸).
أقول :الآثار نص في الباب، وهى فى حكم المرفوع، لأن مثل هذا لا يقال بالرأى، قال الشوكاني في "النيل" (٣٥٩:٤) قال النووى وروى هذا عن عمر بن الخطاب وعلى وابن عمر وأنس. وحكى ابن القيم عن أحمد أنه قول غير واحد من أصحاب رسول الله ﷺ، ورواه الأثرم عن ابن عباس، وكذا حكاه عنه في " البحر"، وهو قول أبي حنيفة وأحمد ومالك اهـ مع بعض التغير. وقيل: أيام الذبح يوم النحر وثلاثة أيام بعده، ورجحه الشوكاني، واحتج بما روى عن جبير ابن مطعم وأبي هريرة وأبي سعيد، أن أيام التشريق كلها ذبح.
والجواب عنه أن ما روى عن أبى هريرة وأبى سعيد ففي سنده معاوية بن يحيى الصدفي وهو واه، ومع ذلك فقد اضطرب في الإسناد فقال تارة عن الزهرى عن سعيد بن المسيب عن أبي هريرة. وأخرى عن الزهرى عن سعيد عن أبي سعيد. ورواه ابن أبي حاتم في العلل من طريق معاوية عن الزهري عن سعيد عن أبي سعيد، وحكى عن أبيه أنه قال: هو موضوع. وأما ما روى عن جبير بن مطعم فاختلف فيه على سليمان بن موسى، فأحمد يرويه عن أبي " المغيرة وأبي اليمان عن سعيد بن عبد العزيز عن سليمان بن موسى عن جبير بن مطعم. والترمذي يرويه عن عبد الملك بن عبد العزيز عن سعيد بن عبد العزيز عن سليمان بن موسى عن عبد الرحمن ابن أبي حسين عن جبير بن مطعم بزيادة عبد الرحمن بن أبي حسين، وهكذا يرويه ابن حبان في " صحيحه "، والبزار في مسنده، والدارقطني يرويه عن سويد بن عبد العزيز عن سعيد بن عبد العزيز عن سليمان بن موسى عن نافع بن جبير عن جبير وعن أبي سعيد حفص بن غيلان عن سليمان بن موسى عن عمر وابن دينار عن جبير. والطبراني يرويه عن حفص بن غيلان عن سليمان ابن موسى عن محمد بن المنكدر عن جبير بن مطعم. وصحح ابن حبان من بين هذه الطرق طريق - ابن أبي حسين، وكذا صوبه البزار أيضا، ولكن أعله بالانقطاع، وقال ابن أبي حسين: لم يلق جبيرابن مطعم، كذا في الزيلعي (٤٩٨:١ و ٢٧٦:٢) ملخصا.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وبمثله لا يترك إجماع أجلة الصحابة على أن أيام النحر ثلاثة، فافهم، فإن هل من مزال الأقدام، ومعترك الأفهام، والحمد لله الوهاب على ما هدانا طريق الحق والصواب، وما كنا لنهتدي لولا أن هدانا الله."
(کتاب الأضاحي، باب أن الأضحيه يومان بعد يوم الأضحى، ج:17، ص:230۔۔۔236، ط:إدارۃ القرآن والعلوم الإسلامیة باکستان کراتشی)
المغني لابن قدامةمیں ہے:
"آخر الوقت، وآخره آخر اليوم الثاني من أيام التشريق فتكون أيام النحر ثلاثة؛ يوم العيد، ويومان بعده. وهذا قول عمر، وعلي، وابن عمر، وابن عباس، وأبي هريرة، وأنس. قال أحمد: أيام النحر ثلاثة، عن غير واحد من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم. وفي رواية، قال: خمسة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم. ولم يذكر أنسا. وهو قول مالك، والثوري، وأبي حنيفة وروي عن علي، آخر أيام التشريق. وهو مذهب الشافعي، وقول عطاء، والحسن؛ لأنه روي عن جبير بن مطعم، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أيام منى كلها منحر» . ولأنها أيام تكبير وإفطار، فكانت محلا للنحر كالأولين.
وقال ابن سيرين: لا تجوز إلا في يوم النحر خاصة؛ لأنها وظيفة عيد، فلا تجوز إلا في يوم واحد، كأداء الفطر. يوم الفطر. وقال سعيد بن جبير، وجابر بن زيد، كقول ابن سيرين في أهل الأمصار، وقولنا في أهل منى، وعن أبي سلمة بن عبد الرحمن، وعطاء بن يسار: تجوز التضحية إلى هلال المحرم. وقال أبو أمامة بن سهل بن حنيف: كان الرجل من المسلمين يشتري أضحية، فيسمنها حتى يكون آخر ذي الحجة، فيضحي بها. رواه الإمام أحمد بإسناده. وقال: هذا الحديث عجيب. وقال: أيام الأضحى التي أجمع عليها ثلاثة أيام. ولنا، أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن ادخار لحوم الأضاحي فوق ثلاث.ولا يجوز الذبح في وقت لا يجوز ادخار الأضحية إليه، ولأن اليوم الرابع لا يجب الرمي فيه، فلم تجز التضحية فيه، كالذي بعده ولأنه قول من سمينا من الصحابة، ولا مخالف لهم إلا رواية عن علي، وقد روي عنه مثل مذهبنا، وحديثهم إنما هو: " ومنى كلها منحر ". ليس فيه ذكر الأيام، والتكبير أعم من الذبح، وكذلك الإفطار، بدليل أول يوم النحر، ويوم عرفة يوم تكبير، ولا يجوز الذبح فيه."
(کتاب الأضاحي، مسألة مضى من نهار يوم الأضحى مقدار صلاة العيد وخطبته فقد حل الذبح، ج:9، ص:452، ط:مكتبة القاهرة)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144512100354
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن