بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

راجح قول کے مطابق خلوت فاسدہ کے بعد اگر طلاق ہوجائے توعدت واجب ہوگی


سوال

شادی کے بعد عورت کے ساتھ تنہائی میں صحبت نہیں کی لیکن اسے ہاتھ لگایا یا بوسہ دیا اب اگر طلاق ہوتی ہے تو عدت کا کیا حکم ہے ؟

مذکورہ صورت میں اگرعورت ماہواری میں ہو تو  عدت کا کیا حکم ہے؟2: اگرپاک ہو تو کیا حکم ہے ؟

وضاحت:تنہائی اور طلاق دونوں حالت میں عورت  ماہواری  میں تھی ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر تنہائی میں بیوی کے ساتھ بوس وکنار کیا ہے توعورت پر عدت گزارنا لازم ہےاور عدت تین ماہواریاں ہیں ،اب اگر عورت  طلاق کے وقت ماہواری میں تھی تو یہ ماہواری عدت میں شمار نہیں ہوگی اس کے بعد مکمل تین ماہواریاں گزارنا لازم ہوگا   ۔

الجوهرة النيرةمیں ہے:

"‌والخلوة ‌الصحيحة أن تسلم نفسها وليس هناك مانع لا من جهة الطبع ولا من جهة الشرع والفاسدة أن يكون هناك مانع إما طبعا وإما شرعا فالطبع أن يكونا مريضين أو أحدهما مرضا لا يمكن معه الجماع أو بها رتق أو معهما ثالث والذي من جهة الشرع أن يكونا محرمين أو أحدهما إحرام فرض أو تطوع أو صائمين أو أحدهما صوم فرض وأما صوم التطوع فهو غير مانع أو كانت حائضا أو نفساء."

(کتاب النکاح، الكفاءة في النكاح معتبرة، ج:2، ص:131، ط:دارالکتب العلمیة)

الفتاوى الهندية میں ہے:

"‌والخلوة ‌الصحيحة أن يجتمعا في مكان ليس هناك مانع يمنعه من الوطء حسا أو شرعا أو طبعا، كذا في فتاوى قاضي خان والخلوة الفاسدة أن لا يتمكن من الوطء حقيقة كالمريض المدنف الذي لا يتمكن من الوطء ومرضها ومرضه سواء هو الصحيح، كذا في الخلاصة أما المرض فالمراد به ما يمنع الجماع أو يلحق به ضرر والصحيح أن مرضه لا يخلو عن تكسر وفتور فكان مانعا سواء لحقه ضرر أم لا، هذا التفصيل في مرضها. كذا في الكافي إذا خلا بامرأته وأحدهما محرم بفرض أو نفل أو في صوم فرض أو صلاة فرض لا تصح الخلوة وفي صوم القضاء والنذر والكفارة روايتان والأصح أنه لا يمنع الخلوة وصوم التطوع لا يمنع في ظاهر الرواية وصلاة التطوع لا تمنعوالحيض والنفاس يمنعان ."

(کتاب النکاح، الباب السابع في المهر، الفصل الثاني فيما يتأكد به المهر والمتعة، ج:1، ص:304، ط:دار الفكر بيروت)

الاختيار لتعليل المختار میں ہے:

"(‌والخلوة ‌الصحيحة أن لا يكون ثم مانع من الوطء طبعا وشرعا، فالمرض المانع من الوطء من جهته أو جهتها مانع طبعا، وكذلك الرتق والقرن) . وكذا إذا كان يخاف زيادة المرض، فإنه لا يعرى عن نوع فتور. (والحيض) مانع شرعا وطبعا؛ إذ الطباع السليمة تنفر منه. (والإحرام) بالحج أو العمرة فرضا أو نفلا، (وصوم رمضان وصلاة الفرض) مانع شرعا."

(کتاب النکاح، فصل أقل المهر وأكثره، ج:3،ص:103، ط:دار الكتب العلمية - بيروت)

الدرالمختار مع ردالمحتار میں ہے:

"(‌والخلوة) مبتدأ خبره قوله الآتي كالوطء (بلا مانع حسي) كمرض لأحدهما يمنع الوطء (وطبعي) كوجود ثالث عاقل ذكره ابن الكمال، وجعله في الأسرار من الحسي، وعليه فليس للطبعي مثال مستقل (وشرعي) كإحرام لفرض أو نفل. (و) من الحسي (رتق) بفتحتين: التلاحم (وقرن) بالسكون: عظم (وعفل) بفتحتين: غدة (وصغر) ولو بزوج (لا يطاق معه قوله وجعله في الأسرار من الحسي) قلت: وجعله في البحر مانعا لتحقق الخلوة حيث ذكر أن لإقامة الخلوة مقام الوطء شروطا أربعة: الخلوة الحقيقية، وعدم المانع الحسي أو الطبعي أو الشرعي، فالأول للاحتراز عما إذا كان هناك ثالث فليست بخلوة وعن مكان لا يصلح للخلوة كالمسجد والطريق العام والحمام إلخ. ثم ذكر عن الأسرار أن هذين من المانع الحسي، وعليه فالمانع الحسي ما يمنعها من أصلها أو ما يمنع صحتها بعد تحققها كالمرض فافهم (قوله فليس للطبعي مثال مستقل) فإنهم مثلوا للطبعي بوجود ثالث وبالحيض أو النفاس مع أن الأولى منهي شرعا وينفر الطبع عنه فهو مانع حسي طبعي شرعي، والثاني طبعي شرعي."

(کتاب النکاح، باب المہر، مطلب:فی احکام الخلوۃ، ج:4، ص:241، ط:رشیدیة)

وفیہما أيضا:

"و (النفقة والسكنى والعدة وحرمة نكاح أختها وأربع سواها) في عدتها (قوله والعدة) ‌وجوبها ‌من ‌أحكام ‌الخلوة سواء كانت صحيحة أم لا ط: أي إذا كانت فيه نكاح صحيح، أما الفاسد فتجب فيه العدة بالوطء كما سيأتي۔۔۔۔(قوله والعدة) ‌وجوبها ‌من ‌أحكام ‌الخلوة سواء كانت صحيحة أم لا ط: أي إذا كانت فيه نكاح صحيح، أما الفاسد فتجب فيه العدة بالوطء كما سيأتي (قوله وتجب العدة) ظاهره الوجوب قضاء وديانة.

وفي الفتح قال العتابي: تكلم مشايخنا في العدة الواجبة بالخلوة الصحيحة أنها واجبة ظاهرا أو حقيقة، فقيل لو تزوجت وهي متيقنة بعدم الدخول حل لها ديانة لا قضاء (قوله في الكل إلخ) هذا في النكاح الصحيح أما النكاح الفاسد لا تجب العدة في الخلوة فيه بل بحقيقة الدخول فتح (قوله لتوهم الشغل) أي شغل الرحم نظرا إلى التمكن الحقيقي، وكذا في المجبوب لقيام احتمال الشغل بالسحق وهي حق الشرع وحق الولد، ولذا لا تسقط لو أسقطاها، ولا يحل لها الخروج ولو أذن لها الزوج، وتتداخل العدتان ولا يتداخل حق العبد فتح، وتمامه في المعراج (قوله واختاره التمرتاشي إلخ) وجزم به في البدائع. قال في الفتح: ويؤيد ما ذكره العتابي (قوله تجب العدة) لثبوت التمكن حقيقة فتح."

(کتاب النکاح، باب المهر، مطلب:في أحکام الخلوۃ، ج:4، ص:247۔۔۔252، ط:رشیدیة)

وفیہما أیضا:

"(وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه)....(بعد الدخول حقيقة، أو حكما) أسقطه في الشرح، وجزم بأن قوله الآتي " إن وطئت " راجع للجميع (ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية...(و) العدة (في) حق (من لم تحض) حرة أم أم ولد (لصغر) بأن لم تبلغ تسعا (أو كبر).....(ثلاثة أشهر) بالأهلة لو في الغرة وإلا فبالأيام بحر وغيره (إن وطئت) في الكل ولو حكما كالخلوة ولو فاسدة كما مر...(و) العدة (للموت أربعة أشهر) بالأهلة لو في الغرة كما مر (وعشر) من الأيام بشرط بقاء النكاح صحيحا إلى الموت (مطلقا) وطئت أو لا ولو صغيرة، أو كتابية تحت مسلم ولو عبدا فلم يخرج عنها إلا الحامل....(قوله: فلم يخرج عنها إلا الحامل) فإن عدتها للموت وضع الحمل كما في البحر، وهذا إذا مات عنها وهي حامل، أما لو حبلت في العدة بعد موته فلا تتغير في الصحيح."

(کتاب الطلاق، باب العدۃ، ج:5، ص:184، ط:رشیدیة)

الفتاوى الهندية میں ہے:

"‌إذا ‌طلق ‌امرأته في حالة الحيض كان عليها الاعتداد بثلاث حيض كوامل ولا تحتسب هذه الحيضة من العدة كذا في الظهيرية"

(کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة، ج:1، ص:527، ط:دار الفكر بيروت)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"رتقاء پر بھی بعد خلوت عدت ہوگی 

(سوال ۱۰۷۲) زید کا نکاح ہندہ کے ساتھ ہوا، بعد خلوت کے معلوم  ہوا کہ ہندہ رتقاء ہے ، جماع کے لائق نہیں ہے ، اب اگر زید اس کوطلاق دے دے تو ہندہ کو عدت پوری کرنی چاہئے یا نہیں ؟ در مختار میں فلا عدۃ بخلوۃ الرتقاء لکھا ہے ۔

(الجواب ) شامی میں لکھا ہے کہ صحیح  یہ ہے کہ خلوت فاسدہ میں بھی عدت لازم  ہے وتجب العدۃ بخلوتہ وان کانت فاسدۃ لان تصریحھم بوجوبھا بالخلوۃ الفاسدۃ شامل لخلوۃ الصبی۔ (۵) اور درمختار کا یہ قول فلا عدۃ بخلوۃ الرتقاء (۶) قدوری کی اس تفصیل پر مبنی ہے کہ مانع شرعی ہوتو عدت واجب ہے اور مانع حسی ہوتو واجب نہیں مگر باب المہر میں صاحب در مختار نے اس قول قدوری کو نقل فرماکر فرمایا ہے والمذھب الاول ، والاول ھو قولہ وتجب العدۃ فی الکل ۔ (۱) پس صورت مسئولہ میں ہندہ مطلقہ کی عدت پوری کر کے اس کی بہن سے نکاح ہوسکتا ہے نہ قبل عدت کے ۔ فقط۔"

(کتاب الطلاق، ج:10، ص:199، ط:دارالاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"خلوت فاسدہ میں عدت کا حکم

سوال :- ایک شخص نے کسی عورت بالغہ ثیبہ (یعنی اس عورت کا ایک دفعہ نکاح ہوچکا تھا) کو شادی کر کے مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے بعد طلاق دیدی، اب مرد کہتا ہے کہ میں نے وطی کی ہے، عورت کہتی ہے میرے ساتھ وطی نہیں ہوئی، میں ایک بستر پر وہ دوسرے بستر پر میرے ساتھ اس کی پہلی بیوی کی لڑکی قریب ۱۰؍ ۱۱؍ برس کی میرے بستر پر لیٹی ہوئی تھی، اس وجہ سے وہ وطی نہیں کرسکا، اورمیرے ساتھ بات بھی نہیں ہوئی، اب اس عورت کا قول معتبر ہے، یانہیں، اوراس کے قول سے خلوت صحیحہ مانی جائے گی، یا نہیں، اوراس عورت پرعدت آتی ہے، یا نہیں، عبارت کتب فقہ سے جواب دے کر سرفراز فرمائیں، واضح ہو کہ عورت نے عدت پوری کرنے سے پہلے ہی دوسرے شوہر سے نکاح کر لیا بعض عالم عدت کا انکار کرتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ خلوت صحیحہ پائی گئی لہٰذا عدت واجب ہوگی، عالمگیریہ کی عبارت سے نائم کی عورت کو خلوت غیر صحیحہ مانتے ہیں اورعدت کے واسطے خلوۃ صحیحہ ضروری معلوم پڑتی ہے، اورشامی میں معلوم ہوتا ہے کہ عدت کے لئے خلوت غیر صحیحہ بھی کافی  ہے، اورنائم کی عورت پر عدت معلوم ہوتی ہے، ہم کو تسلی فرماویں۔

الجواب حامداً ومصلیاً

جب زوجین میں تمکین وطی کے متعلق اختلاف ہو تو شرعاً منکر کا قول معتبر ہوتا ہے پس صورت مسؤلہ میں عورت کا قول معتبر ہوگا: لو اختلف الزوجان فی التمکین من الوطی فالقول لمنکرہ۱ھـ اشباہ۱؂ ص:۳۷، عورت کے قول کے مطابق خلو ت صحیحہ نہیں ہوئی، بلکہ خلوت فاسدہ ہوئی ولو کان معہا نائم او اعمٰی لا یصح الخلوۃ۔ عالمگیری۱؂ ص۳۱۵ج۲، مگر تاہم عدت واجب ہوگی کیونکہ مختار اور صحیح قول کی بناء پر خلوت فاسدہ کی صورت میں بھی عدت واجب ہوتی ہے: وتجب العدۃ فی الکل ای کل انواع الخلوۃ ولو فاسدۃ ۱ھـ درمختار۲؂ ص: ۵۳۱، ج:۲، تجب العدۃ فی الخلوۃ سواء کانت الخلوۃ صحیحۃ ا و فاسدۃ استحسانا لتوہم الشغل ۱ھـ عالمگیری۳؂ ص۳۱۶ ج۲، خلوت فاسدہ کی صورت میں وجوب عدۃ کے متعلق ایک دوسرا قول بھی ہے جس کو صاحب تنویرنے نقل کیاہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر مانع شرعی کی وجہ سے خلوۃ فاسدہ ہوئی ہے تب تو عدت واجب ہے، اوراگر مانع حسی کی وجہ سے خلوۃ فاسدہ ہوئی ہے تو عدت واجب نہیں: وقیل ان کان المانع شرعیاً تجب وان کان حسیاًلا ۴؂  مگر درمختا۵؂ر   ص:۵۳۲، بحر،۶؂ص:۱۵۵، ج:۳، مجمع الانہر۷؂   ص۳۵۱، ج:۱، وغیرہ میں لکھا ہے کہ والمذہب وجوب العدۃ مطلقا درمختار۸؂ باب العدۃ میں خلوۃ کے ساتھ صحیحہ کی قید ذکر کی ہے جس پر طحطاوی وغیرہ نے اعتراض کیا ہے وسبب وجوبہا عقد النکاح المتاکد بالتسلیم وما جریٰ مجراہ من موت اوخلوۃ ای صحیحۃقال الطحطاوی۹؂ ص:۲۰۴۰، وفیہ نظر فان الذی تقدم فی باب المہر ان المذہب وجوب العدۃ لخلوۃ صحیحۃ کانت اوفاسدۃ یاتی لہ ایضاً وقال القدوری : ان کان الفساد لمانع شرعی کالصوم وجبت وان کان لمانع حسی کالرتق لاتجب وکلام الشارح لم یوافق احدا من القولین ۱ھـ حلبی اورقدوری کے قول پر اول توعام فقہاء نے فتویٰ نہیں دیا بلکہ بعض نے اس قول کو قیل سے ذکر کرنے پر اکتفاء کیا ہے اوربعض نے ضعف کی تصریح بھی کردی ہے، قال رحمہ اللّٰہ تعالٰی وتجب العدۃ فیہا ای تجب العدۃ فی الخلوۃ  سواء کانت الخلوۃ صحیحۃ او لم تکن صحیحۃ استحسانا لتوہم الشغل ولان العدۃ حق ا لشرع والولد فلایصدقان فی ابطال حق الغیر بخلاف المہر حیث لا یجب الا اذا صحت الخلوۃ لا نہ مال یحتاط فی ایجابہ وذکر القدوری فی شرحہ ان المانع ان کان شرعیا تجب العدۃ لثبوت التمکن  حقیقۃ وان کان حقیقیاً کالمرض والصغر لا تجب لانعدام التمکن حقیقۃ ۱ھـ زیلعی۱؂ ص:۱۴۴، ج:۲، قولہ وذکر القدوری الخ مخصص لقولہ فیما سبق اولم تکن صحیحۃ وحاصلہ انہ لیس کل خلوۃ فاسد تجب العدۃ فیہا بل انما تجب فی البعض منہا قال فی شرح المجمع للمصنف بعد ذکر الخلوۃ الصحیحۃ والفاسدۃ والعدۃ واجبۃ علیہا فی جمیع ذٰلک ثم قال وقیل ان کان المانع شرعیا وساق ماذکرہ القدوری وظاہرہ ضعف ما قالہ القدوری ۱ھـ شلبی۲؂۔ دوسرے وہاں اجنبی کا موجود ہونا مانع شرعی بھی ہے: قولہ فلیس للطبعی مثال مستقل فانہم مثلوا للطبعی بوجود ثالث وبالحیض اوالنفاس مع ان الاولی منہی شرعاً وینفر الطبع عنہ فہو مانع حسی طبعی شرعی الخ رد المحتار۳؂ ص۵۲۳،ج۲، اور مانع شرعی کی صورت میں قدوری کے قول کے مطابق بھی عدت واجب ہوتی ہے۔"

فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم واحکم

حررہٗ العبد محمود گنگوہی عفا اللہ عنہ معین مفتی مدرسہ مظاہرعلوم سہارن پور ۲۹؍ ۱۱؍ ۵۵ھ؁

(باب العدۃ، ج:13، ص:386، ط:دارالافتاء جامعہ فاروقیہ)

امداد الفتاوی میں ہے:

"خلوت صحیحہ وفاسدہ میں بلا جماع عدت کا واجب ہونا 

سوال(۱۳۶۸) : قدیم ۲/۵۰۹-  ایک لڑکی کی شادی ایک مرد سے ہوئی لیکن خلوت صحیحہ پائی نہیں گئی یعنی دونوں باہم مل کر علیحدہ کمرے میں نہیں سوئے بلکہ ایک ہی کمرے میں خویش ویگانہ لڑکی کے جو مرد و عورت تھے اُس لڑکی کو لیکر سوئے تھے اور وہ مرد بھی ایک جانب علیٰحدہ اُسی کمرے میں سویا تھا۔ بعد اُس کے یعنی دوسرے دن معلوم ہوا کہ ناکح نامرد ہے پس لوگوں کے کہنے سے ناکح نے اپنی زوجہ کو طلاق دیا۔ پس اس صورت میں عدت اُس عورت پر لازم ہے یا نہیں ؟ کوئی کہتا ہے خلوت صحیحہ ہوئی اور کوئی کہتا ہے خلوت فاسدہ ہوئی اور کوئی کہتا ہے نہ خلوت صحیحہ ہوئی اور نہ فاسدہ عجیب خلجان میں طبیعت پڑی ہے۔ اگراُس عورت پر بوجہ ناکح کے نامرد ہونے کے عدت لازم نہیں تو اگر کسی مرد کو ایسی صورت پیش آوے تو اُس کا کیا حکم ہے ؟ بینوا بالکتاب توجروا یوم الحساب۔ 

الجواب: اول اس کی تحقیق کرلی جاوے کہ خلوت ہوئی یا نہیں ۔ اگر خلوت ہوئی تو عدت واجب ہے گو وہ خلوت بوجہ عنین ہونے مرد کے فاسد ہوگی مگر عدت خلوت فاسدہ میں بھی واجب ہوتی ہے۔"

 بقول أصح وفي رد المحتار: أن المذھب وجوب العدۃ للخلوۃ صحیحۃ أوفاسدۃ۔ ج:۲،ص:۹۸۶۔

    ۶ / جمادی الاولیٰ ۱۳۲۸؁ھ (تتمہ اولیٰ ، ص ۸۴) 

(کتاب الطلاق، ج:2، ص:502، ط:دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144511101860

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں