بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کزن (چچا زاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد، خالہ زاد) سے شادی کرنے کا حکم اور اس بارے میں روایت کی تحقیق


سوال

کیا دینِ اسلام میں کزن سے شادی کرنا جائز ہے؟ پاکستان میں بہت سے لوگ کزن سے شادی کرنے کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوئے ہیں، اسی میں اس بارے میں پوچھنا چاہتی ہوں، میں نے کسی جگہ پڑھا تھا کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ  بیٹیوں کی شادی خاندان سے باہر کروانے کو ترجیح دینی چاہیے، کیا یہ بات درست ہے؟ اگر درست ہے تو کیا آپ مجھے اس کا حوالہ دے سکتے ہیں؟

جواب

دینِ اسلام میں کزن (چچا زاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد، خالہ زاد)  سے نکاح کرنا جائز  ہے، قرآنِ مجید میں ہے: 

"﴿ يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ اِنَّـآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ اللَّاتِـىٓ اٰتَيْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ مِمَّآ اَفَـآءَ اللّـٰهُ عَلَيْكَ وَ بَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِىْ هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِىُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْـهِـمْ فِـىٓ اَزْوَاجِهِـمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُـهُـمْ لِكَيْلَا يَكُـوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا﴾."[الأحزاب:۵۰]

ترجمہ:" اے نبی (علیہ السلام) ہم نے آپ کے لیے آپ کی یہ بیبیاں جن کو آپ ان کے مہر دے چکے ہیں حلال کی ہیں اور وہ عورتیں بھی جو تمہاری مملوکہ ہیں اور جو اللہ تعالیٰ نے غنیمت میں آپ کو دلوا دی ہیں،اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموؤں کی بیٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو اور اس مسلمان عورت کو بھی جو بلا عوض اپنے کو پیغمبر کو دے دے، بشرطیکہ پیغمبر اس کو نکاح میں لانا چاہیں، یہ سب آپ کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں نہ اور مؤمنین کے لیے،  ہم کو وہ احکام معلوم ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیبیوں اور لونڈیوں کے بارے میں مقرر کیے ہیں؛ تاکہ آپ پر کسی قسم کی تنگی (واقع) نہ ہو اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔" (بیان القرآن)

سورہ نساء میں ارشاد ہے:

"حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآئِكُمْ وَ رَبَآئِبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ  23

وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا  24."

ترجمہ:23:"تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں، اور تمہاری بہنیں ،  اور تمہاری پھوپھیاں ، اور تمہاری خالائیں ، اور بھتیجیاں اور بھانجیاں ،اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے (یعنی انا) اور تمہاری وہ بہنیں جو دودھ پینے کی وجہ سے ہیں ، اور تمہاری بیبیوں کی مائیں، اور تمہاری بیٹیوں کی بیٹیاں ، جو کہ تمہاری پرورش میں رہتی ہیں ان بیبیوں سے کہ جن کے ساتھ تم نے صحبت کی ہو ،اور اگر تم نے ان بیبیوں سے صحبت نہ کی ہو تو تم کو کوئی گناہ نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بیبیاں جو کہ تمہاری نسل سے ہوں ، اور یہ کہ تم دو بہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایک ساتھ رکھو لیکن جو پہلے ہوچکا۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے بڑے رحمت والے ہیں۔

24:اور وہ عورتیں جو کہ شوہر والیاں ہیں مگر جو کہ تمہاری مملوک ہوجاویں اللہ تعالیٰ نے ان احکام کو تم پر فرض کردیا ہے ،اور ان (عورتوں) کے سوا ( اور عورتیں) تمہارے لئے حلال کی گئیں ہیں(یعنی یہ) کہ تم ان کو اپنے مالوں کے ذریعہ سے چاہو ، اس طرح سے کہ تم بیوی بناؤ صرف مستی ہی نکالنا نہ ہو ، پھر جس طریق سے تم ان عورتوں سے منتفع ہوئے ہو سو ان کو ان کے مہر دو جو کچھ مقرر ہوچکے ہیں اور مقرر ہوئے بعد بھی جس پر تم باہم رضامند ہوجاو ٴاس میں تم پر کوئی گناہ نہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے جاننے والے ہیں بڑے حکمت والے ہیں۔"(بیان القرآن)

لہذا کزن (چچا زاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد، خالہ زاد)  سے شادی کرنے میں شرعاً   کوئی قباحت نہیں،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی پھوپھی زاد تھیں، نیز آپ ﷺ نے خود اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کیا تھا، جو آپ ﷺ کے چچا زاد تھے، اور اس بابرکت شادی کے نتیجے میں حضرات حسنین رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔

اس بارے میں جو روایت پیش کی جاتی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قریبی رشتے داروں میں نکاح مت کرو؛ کیوں کہ اس کی وجہ سے بچہ کمزور پیدا ہوتا ہے، وہ روایت سند کے اعتبار سے انتہائی کمزور ہونے کی وجہ سے محدثین کے یہاں قابلِ قبول نہیں ہے،علامہ  ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس روایت کی کوئی اصل نہیں ملی۔

البتہ بعض  علماء نے قریبی رشتہ داروں میں نکاح سے اس لیے منع کیا ہے کہ بعض اوقات قریبی رشتہ دار کی طرف قلبی و شہوانی میلان نہایت کم ہوتا ہے، جو کہ مقاصدِ نکاح کے خلاف ہے، لہٰذا اگر کسی کو کزن (قریبی رشتے دار) سے شادی کرنے کی طرف میلان نہ ہو یا تجربے سے کوئی بات ثابت ہوجائے تو نہ کرنا بہتر ہے، یہ مقصد ہرگز نہیں کہ رشتے داروں (کزن) سے نکاح ہمیشہ بیماریوں کا سبب یا شرعاً ناپسندیدہ ہے۔

خلاصہ یہ کہ جن کے ساتھ شادی کرنے سے نقصان یا بیماری کا خطرہ تھا ، اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ نکاح کرنے کو منع کر دیا ہے اور جن سے نکاح کرنے میں نقصان یا بیماری کا اندیشہ نہیں ہے ان سے نکاح کرنے کی اجازت دی ہے، اور کزن سے شادی کی اجازت دی ہے اگر رضاعت کی حرمت نہ ہو تو ان سے نکاح کرنے میں بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔

إحياء علوم الدين للغزالی میں ہے:

"الثَّامِنَةُ أَنْ لَاتَكُونَ مِنَ الْقَرَابَةِ الْقَرِيبَةِ فَإِنَّ ذَلِكَ يقلل الشهوة، قال صلى الله عليه وسلم: لاتنكحوا القرابة القريبة فإن الولد يخلق ضاوياً أي نحيفاً وذلك لتأثيره في تضعيف الشهوة؛ فإن الشهوة إنما تنبعث بقوة الإحساس بالنظر واللمس، وإنما يقوى الإحساس بالأمر الغريب الجديد، فأما المعهود الذي دام النظر إليه مدةً فإنه يضعف الحس عن تمام إدراكه والتأثر به ولاتنبعث به الشَّهْوَةَ، فَهَذِهِ هِيَ الْخِصَالُ الْمُرَغِّبَةُ فِي النِّسَاءِ."

( كتاب آداب النكاح، 2/ 41، ط: دار المعرفة)

خلاصة البدر المنير لابن الملقن میں ہے:

"1910- حديث: "لا تنكحوا القرابة القريبة، فإن الولد يخلق ضاويًا". "غريب، قال ابن الصلاح: لم أجد له أصلًا."

(كتاب النكاح، باب: ما جاء في استحباب النكاح للقادر على مؤنه، وصفة المنكوحة وأحكام النظر، 2/ 179، ط: مكتبة الرشد)

التمييز في تلخيص تخريج أحاديث شرح الوجيز المشهور بـ التلخيص الحبير لابن حجر العسقلانی میں ہے:

1952 - [4766]- حديث: "لا تَنكِحُوا الْقَرَابَةَ القريبةَ فإنّ الْولَد يُخلَق ضاويًّا". هذا الحديث تَبع في إيراده إمام الحرمين، هو والقاضي الحسين، وقال ابن الصلاح: لم أجد له أصلا معتمدًا انتهى. وقد وقع في "غريب الحديث" لابن قتيبة، قال: جاء في الحديث "اغْربوا لا تَضوُوا"، وفسره فقال: هو من الضّاويّ، وهو النحيف الجسم، يقال: أَضوت المرأة، إذا أتت بولد ضاوٍ، والمراد: أنكحوا في الغرباء، ولا تنكحوا في القريبة. وروى ابن يونس في "تاريخ الغرباء" في ترجمة الشافعي، عن شيخ له، عن المزني، عن الشافعي قال: أيّما أهل بيت لم تخرج نساؤهم إلى رجال غيرهم، كان في أولادهم حمق. وروى إبراهيم الحربي في "غريب الحديث" عن عبد الله بن المؤمل، عن ابن أبي ملكية، قال: قال عمر لآل السّائب: قد أضوأتم، فأنكحوا في النوابغ. قال الحربي: يعني تزوجوا الغرائب.

( كتاب النكاح، باب ما جاء في استحباب النكاح وصفة المخطوبة وغير ذلك، 5 / 2241 - 2242،  ط:  دار أضواء السلف)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602102668

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں