بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قضا شدہ روزے رکھنے سے پہلے پہلے رمضان آگیا تو قضا شدہ روزوں کا حکم


سوال

میرے تیس روزے حمل کی وجہ سے قضا ہے،  اور قضا روزے ابھی تک ادا نہیں کیے،  اب اگلا رمضان آگیا ہے تو پچھلے روزوں کا فدیہ لازم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی عذر کی وجہ سے روزے نہ رکھے ہوں تو جیسے ہی عذر ختم ہوجائے تو قضا کر لینا چاہیے ،اس لیے کہ زندگی کا کچھ پتا نہیں کہ آئندہ موقع ملے یا نہ ملے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں جب حمل کہ عذر کی وجہ سے پچھلے سال کے روزے باقی ہیں تو تو ائندہ رمضان سے پہلے پہلے اس کی قضا کر لینی چاہیے تھی تاہم جب قضا نہیں کی اور اگلا رمضان اگیا تو اب اس  رمضان کے بعد جتنی جلدی ہو سکےقضا کر لینا چاہیے، اس کو مزید موخر نہیں کرنا چاہیے  ۔

نیز سائلہ جب تک روزے رکھنے پر قادر ہے، تب تک ان پر ان کے قضا روزوں کی قضا کرنا ہی لازم ہوگا، فدیہ ادا کرنا درست نہیں ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وقضوا) لزوما (ما قدروا بلا فدية و) بلا (ولاء) لأنه على التراخي ولذا جاز التطوع قبله بخلاف قضاء الصلاة.

(و) لو جاء رمضان الثاني (قدم الأداء على القضاء)."

(کتاب الصوم ، فصل فی العوارض المبیحة لعدم الصوم جلد ۲ ص : ۴۲۳ ط : دارالفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإن جاء الرمضان الثاني، ولم يقض الأول قدم الأداء على القضاء كذا في النهر الفائق."

(کتاب الصوم ، الباب الخامس فی الاعذار التی تبیح الافطار جلد ۱ ص : ۲۰۸ ط : دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144609100406

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں