بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو یقین دلانے کےلیے طلاق کے الفاظ بولنا اور دو بیویوں میں بلا تعین طلاق واقع ہونا


سوال

آگر کسی شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی بات کا یقین دلانے کے لیے لوگوں کے آگے طلاق اٹھاۓ اور حقیقت میں وہ بات جھوٹ ہو تو کیا طلاق واقع ہو گی اور اگر ہو گی تو کو نسی بیوی کو طلاق ہو گی جبکہ اس نے اپنی کسی بیوی کا نام نہیں لیا؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جب کوئی شخص  کسی کو کسی بات کا یقین دلانے کے لیے لوگوں کے آگے طلاق اٹھاۓ اور حقیقت میں وہ بات جھوٹ   بول رہاہو تو اس صورت میں طلاق کی شرط پائی جانے کی وجہ سے طلاق واقع ہوجائےگی؛ کیوں کہ طلاق سچ بولنے پر معلق کی گئی مذکورہ شخص نے جھوٹ بولا البتہ کسی بیوی کی نشاندہی نہ کرنے کی صورت میں ان  دونوں بیویوں میں سے مطلقہ کی تعیین کااختیار شوہر کو ہوگا، تعیین سے قبل کسی بیوی سے صحبت جائز نہیں ہوگی  لیکن اس کے باوجود اگر کسی ایک سے تعیین سے پہلے صحبت کرلی توگرچہ گناہ کیا لیکن یہ صحبت کرناتعیین کے قائم مقام ہوجائے گی یعنی دوسری بیوی پر طلاق واقع ہوجائےگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(كتاب الطلاق، الباب الرابع، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما،ج:1،ص:420،ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو قال امرأتي طالق وله امرأتان أو ثلاث تطلق واحدة منهن وله خيار التعيين) اتفاقا."

(کتاب الطلاق، باب صریح الطلاق، ج:3، ص:290، ط: سعید) 

بدائع صنائع میں ہے:

"إذا قال لامرأتيه إحداكما طالق ثلاثا فله خيار التعيين يختار أيهما شاء للطلاق؛ لأنه إذا ملك الإبهام ملك التعيين."

(کتاب الطلاق ،فصل في أحكام العدة،ج:3،ص: 225ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں