بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

خالہ اور والدہ کا اپنی بیٹی کے ساتھ سخت رویہ کرنا اور اس پر تہمتیں لگانے کا حکم


سوال

میں ایک ڈاکٹر خاتون ہوں، اور میں نے اپنی خالہ کا اور ان کے شوہر کا بہت علاج کیا، یہاں تک کہ جب ان کے شوہر لاعلاج ہوگئے تو میں نے اللہ تعالی کے فضل سے اس کا علاج کیا، اور وہ ٹھیک ہوگئے، جب میں چھوٹی تھی تب سے ہی میرے خالہ کی خواہش  تھی کہ وہ میری شادی کرادے، لیکن میں نے ان کی خواہش کے برعکس دوسری جگہ والدین کی اجازت سے شادی کی، جس کی وجہ سے وہ اور ان کے خاوند میرے  دشمن بن گئے ہیں، اور میری والدہ بھی ان کے ساتھ دیتی ہے، میراساتھ نہیں دیتی، میری ہربات وہ جاکر خالہ کو بتادیتی ہے، چاہیے پرسنل بات ہو، یا جیسی بھی بات ہو، اور میری والدہ مجھ سے کہتی ہیں کہ میرے گھر سےنکل جاؤ، وہ اس لیے مجھے گھر سے نکالتی ہے تاکہ مجھے اپنی جائیداد  کی میراث سے محروم کریں ۔

نیز میں نے بکریاں پالی ہیں، جوکہ فلیٹ کے نیچے ایک کونے میں کھڑی ہوتیں ہیں، اس جگہ میں ایک چھپرا لگایا تھا جوکہ میری خالہ ، اس کے شوہر اور ان کے بچوں نے اکھاڑکر توڑدیا ہے، اور مجھ پر جھوٹا الزام لگایا ہےکہ یہ یہاں رات کو ایک مرد کے ساتھ زنا کرتی ہے اس لیے یہ جگہ ہم نے توڑ دی ہے۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا میری والدہ، خالہ اور  اس کے شوہر اور بچوں کا یہ طرزِ عمل میرے ساتھ درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی مسلمان کی عزتِ نفس شریعت میں قابلِ احترام ہے، کسی کی ذات پر حمل کرنا اور اس پر غلط الزامات لگانا شرعاً ناجائز و حرام ہے، کیوں کہ کامل انسان کی صفت یہ ہے کہ اس کی زبان اور  ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ ہو، اور کسی مسلمان کی تحقیر  اور عزت ریزی کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔

نیز شریعت میں والدین کے لیے بھی حکم ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں، خاص کر والدہ تو اپنی اولاد کی کسی صورت میں تکلیف برداشت نہیں کرسکتی تو والدہ ہی کی حیثیت سے اپنی اولاد کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا شرعی امر ہے، خاص کر بچیوں کی تربیت  میں تو والدہ ہی کا کردار زیادہ مؤثر ہوتا ہے، والدہ کی دیانت کا تقاضا یہ  ہے کہ وہ اپنی اولاد  کی راز کی باتیں کسی کو نہ بتائیں ،  کیوں کہ  اولاد کو تکلیف دینے پر خوشی کا اظہار کرنا ایک بے دردانہ رویہ ہونے کی وجہ سے شرعا ناجائز ہے۔

 صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ نے خالہ کی اجازت اور رضامندی کے بغیر   اپنے والدین کی رضامندی سے نکاح کیا ہے تو یہ نکاح شرعاً درست ہے، اس وجہ سے خالہ کا اس کے ساتھ دشمنی رکھنا اور الزامات لگانا شرعاً ناجائزوحرام  ہے۔

نیز خالہ اور اس کے شوہر اور بچوں نے جو سائلہ کا چھپرا توڑا   ہے اس کا ضمان  ان پر لازم ہے، دوبارہ سے سائلہ  کا مذکورہ چھپرا بنایا جائے یا جتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا اعادہ کیا جائے۔نیز سائلہ کی والدہ کے لیے بھی کسی صورت میں یہ جائز نہیں  کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ سخت رویہ رکھے ،اور ان کی گھریلوں باتیں باہر جاکر خالہ یا کسی اور کو بتائیں، یا  اپنی جائیداد کی میراث سے    بیٹی کو محروم رکھے۔ 

"يا أيها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرا من الظن إن بعض الظن إثم ...

أي لا تظنوا بأهل الخير سوءا إن كنتم تعلمون من ظاهر أمرهم الخير ... قال علماؤنا: فالظن هنا وفي الآية هو التهمة. ومحل التحذير والنهي إنما هو تهمة لا سبب لها يوجبها، كمن يتهم بالفاحشة أو بشرب الخمر مثلا ولم يظهر عليه ما يقتضي ذلك ... وعن النبي صلى الله عليه وسلم  إن الله حرم من المسلم دمه وعرضه وأن يظن به ظن السوء."

(سورة الحجرات،  16/ 332، ط: دار الكتب المصرية، القاهرة)

وفيه أيضا: 

"(يا أيها الذين آمنوا قوا أنفسكم وأهليكم نارا وقودها الناس والحجارة عليها ملائكة غلاظ شداد لا يعصون الله ما أمرهم ويفعلون ما يؤمرون) ...

ففي صحيح الحديث أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته) فالإمام الذي على الناس راع وهو مسئول عنهم والرجل راع على أهل بيته وهو مسئول عنهم ... وقال بعض العلماء لما قال: قوا أنفسكم دخل فيه الأولاد، لأن الولد بعض منه. ... وقال عليه السلام: (حق الولد على الوالد أن يحسن اسمه ويعلمه الكتابة ويزوجه إذا بلغ). وقال عليه السلام: (ما نحل والد ولدا أفضل من أدب حسن). وقد روى عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده عن النبي صلى الله عليه وسلم (مروا أبناءكم بالصلاة لسبع واضربوهم عليها لعشر وفرقوا بينهم في المضاجع) ... قال الكيا: فعلينا تعليم أولادنا وأهلينا الدين والخير، وما لا يستغنى عنه من الأدب. وهو قوله تعالى: (وأمر أهلك بالصلاة واصطبر عليها). ونحو قوله تعالى للنبي صلى الله عليه وسلم: (وأنذر عشيرتك الأقربين)."

(تفسير القرطبي، سورة التحريم، 18/ 194 - 196، ط: دار الكتب المصرية)

بخاری شریف میں ہے:

"حدثنا عبد العزيز بن عبد الله: حدثنا إبراهيم بن جعد، عن ابن أخي ابن شهاب، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله قال: سمعت أبا هريرة يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (كل أمتي معافى ‌إلا ‌المجاهرين، وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا، ثم يصبح وقد ستره الله، فيقول: يا فلان، عملت البارحة كذا وكذا، وقد بات يستره ربه، ويصبح يكشف ستر الله عنه."

ترجمہ: ”سالم بن عبد اللہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری تمام امت کے گناہ معاف ہوں گے ، مگر وہ لوگ جو علانیہ گناہ کرتے ہیں (ان کو معافی نہیں ملے گی) بے شک یہ بڑی بے حیائی کی بات ہے کہ ایک آدمی رات کو کوئی کام ( برائی) کرے اور اللہ اس پر پردہ ڈالے لیکن صبح ہونے پر وہ آدمی خود (اعلان کر کے ) کہے ، اے فلاں ! میں نے رات کو یہ یہ حرکت کی، حالانکہ اس نے رات اس حال میں گزاری کہ اللہ تعالٰی نے اس پر پردہ ڈال دیا تھا، لیکن اس نے صبح ہوتے ہی اللہ کے پردہ کو اٹھا دیا۔“ (کشف الباری)

(كتاب الأدب، باب: ستر المؤمن على نفسه، 5/ 2254، ط: دار ابن كثير)

صحیح البخاری میں ہے:

"حدثنا أبو نعيم: حدثنا زكرياء، عن عامر قال: سمعت عبد الله بن عمرو يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم: (‌المسلم ‌من ‌سلم ‌المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه)."

(كتاب الرقاق، باب: الانتهاء عن المعاصي، 5/ 2379، ط: دار ابن كثير)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"هدم جدار غيره من التراب وبناه نحو ما كان برئ من الضمان وإن كان من خشب وبناه من الخشب كما كان فكذلك برئ وإن بناه من خشب آخر لا يبرأ؛ لأنه يتفاوت حتى لو علم أن الثاني أجود يبرأ كذا في الوجيز للكردري."

(كتاب الغصب، الباب الثالث فيما لا يجب الضمان باستهلاكه،  5/ 129، ط: دار الفكر)

وفيه أيضا: 

"(ومنها) رضا المرأة إذا كانت بالغة بكرا كانت أو ثيبا فلا يملك الولي إجبارها على النكاح عندنا، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح، 1/ 269، ط: دار الفكر)

وفيه أيضا:

"تثبت الولاية بأسباب أربعة بالقرابة والولاء والإمامة والملك، كذا في البحر الرائق. وأقرب الأولياء إلى المرأة الابن ثم ابن الابن، وإن سفل ثم الأب ثم الجد أبو الأب، وإن علا، كذا في المحيط."

(كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء في النكاح،1/ 283، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607100689

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں