ہمارا گاؤں خالق داد جو کہ ضلع اٹک ،تحصیل حسن ابدال میں برھان مقام کا نواحی گاؤں ہے،جس کی آبادی تقریباپچیس سو(۲۵۰۰)ہےاور اس میں درج ذیل سہولیات مہیا ہیں، جن میں سترہ دکانیں پرچون اور ان میں سے تقریبا چھ دوکانوں سے سبزی ،فروٹ بھی مل جاتا ہے،ایک دوکان مرغی کا گوشت ،ایک دوکان بڑاگوشت،چار دکان درزی،دودوکان حجامت(نائی)،کھانا پکانے کی دوکان(دیگیں وغیرہ)،ایک تندور،ایک دوکان بجلی اور سینٹری کے سامان ،دو آٹا چکی،ایک دوکان موبائل ایزی لوڈ،ایزی پیسہ،گیس ،بجلی بل جمع ہوسکتے ہیں۔گھروں میں عورتوں کے پاس تقریبا آٹھ دوکانیں ہیں جن سے عورتوں کی اشیائے ضروریات،تین گھروں میں مردوں عورتوں ،بچوں کے کپڑے،جوتے مل جاتے ہیں،دودوکان سموسہ چاٹ وغیرہ،ایک دوکان سے کفن وغیرہ بھی مل جاتا ہے۔ تین سرکاری(بوائز پرائمری،مڈل گرلز،ہائی گرلز)،دو پرائیویٹ سکول(ایک مڈل،ایک پرائمری)،تین مدرسے(جن میں سے ایک حفظ ،ناظرہ،درس نظامی ،ہائی سکول ،دوسرا بنات درس نظامی،ایک میں صرف ناظرہ)،سات مساجد ہیں، کل اس گاؤں میں ایک سرکاری ہسپتال جس میں بنیادی طبی سہولیات(نزلہ،زکام،بخار ،زچگی،وغیرہ)اس کے علاوہ دوکلینک شام سے رات دس بجے تک کھلتے ہیں۔ گیس ،بجلی،انٹرنیٹ،ٹیلی فون کی سہولت موجود ہے، نیز اس گاؤں کے مغرب میں ڈھوک گلہ نامی آبادی ہے جو کہ ایک چھوٹی آبادی ہے،جب کہ اس کے مشرق میں برہان علاقہ ہے جو کہ بڑا علاقہ ہے اس کے مکانات اس خالق داد گاؤں سے متصل ہیں،اس کی آبادی بھی زیادہ ہے۔ضروریات زندگی (اشیائے خوردونوش،بجلی،گیس ،فون،انٹرنیٹ،بینک،ڈاکخانہ،یونین کونسل،چوکی،ریلوے سٹیشن، نیز ہر قسم کی گاڑیوں کا کام ،ان کے سپیٗر پارٹس وغیرہ بھی مل جاتے ہیں،گوشت کی دوکانیں کپڑا ،میڈیکل سٹور غرض ہر چیز شہروں جیسی سہولیات کے ساتھ مہیا ہیں)تو عرض یہ ہے اس گاؤں کا برہان سے اتصال کی وجہ سے یہاں جمعہ جائز ہوسکتا ہے ،جب کہ یہ دونوں آبادیاں عرفابھی الگ ہیں اور حکومتی تقسیم کے اعتبار سے بھی مستقل ہیں۔ عرض یہ ہے کہ کیا اس گاؤں (خالق داد )میں جمعہ کی ادائیگی جائز ہے،جب کہ کئی عرصہ سے جمعہ یہاں ادا کیا جارہا ہے اس بارے بھی راہ نمائی فرما دیں کہ کیا حکم شرعی ہے؟
واضح رہے کہ نماز جمعہ کے صحیح ہونے کے لیے اس جگہ کا مصر(شہر)ہونا یا فناءِ مصر یا قریہ کبیرہ(بڑا گاؤں)ہونا شرط ہے،قریہ کبیرہ سے مراد یہ ہے کہ وہ گاؤں اتنا بڑا ہو جس کی مجموعی آبادی کم از کم ڈھائی،تین ہزار لوگوں پر مشتمل ہو ،اور وہاں ضرورت کی اشیاء آسانی سے مل جاتی ہوں۔
لہذا صورت ِ مسئولہ میں سوال میں ذکرکردہ تفصیل کی رو سے خالق داد نامی گاؤ ں میں جمعہ کی نماز پڑھنا نہ صرف جائز ہے ، بلکہ واجب ہے ۔
فتاوٰی شامی میں ہے :
"(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:الأول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثرالفقهاء مجتبى؛لظهور التواني في الأحكام،وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاضيقدر على إقامة الحدود۔۔۔۔۔(أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل والمختار للفتوى تقديره بفرسخ ذكره الولوالجي.(و) الثاني: (السلطان) ولو متغلبا أو امرأة فيجوز أمرها بإقامتها لا إقامتها (أو مأمورة بإقامتها) ولو عبدا ولي عمل ناحية وإن لم تجز أنكحته وأقضيته،(و) الثالث (وقت الظهر فتبطل) الجمعة (بخروجه) مطلقا ولو لاحقا بعذر نوم أو زحمة على المذهب لأن الوقت شرط الأداء لا شرط الافتتاح. (و) الرابع: (الخطبة فيه) فلو خطب قبله وصلى فيه لم تصح. (و) الخامس: (كونها قبلها) لأن شرط الشيء سابق عليه (بحضرة جماعة تنعقد) الجمعة (بهم ولو) كانوا (صما أو نياما فلو خطب وحده لم يجز على الأصح) كما في البحر عن الظهيرية،(و) السادس: (الجماعة) وأقلها ثلاثة رجال (ولو غير الثلاثة الذين حضروا) الخطبة (سوى الإمام)۔۔۔۔ (و) السابع: (الإذن العام) من الإمام، وهو يحصل بفتح أبواب الجامع للواردين كافي۔۔۔الخ
(قوله والمختار للفتوى إلخ) اعلم أن بعض المحققين أهل الترجيح أطلق الفناء عن تقديره بمسافة وكذا محرر المذهب الإمام محمد وبعضهم قدره بها وجملة أقوالهم في تقديره ثمانية أقوال أو تسعة غلوة، ميل، ميلان، ثلاثة، فرسخ، فرسخان، ثلاثة، سماع الصوت، سماع الأذان والتعريف أحسن من التحديد لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر وإنما هو بحسب كبر المصر وصغره. بيانه أن التقدير بغلوة أو ميل لا يصح في مثل مصر لأن القرافة والترب التي تلي باب النصر يزيد كل منهما على فرسخ من كل جانب، نعم هو ممكن لمثل بولاق فالقول بالتحديد بمسافة يخالف التعريف المتفق على ما صدق عليه بأنه المعد لمصالح المصر فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك وأي موضع يحد بمسافة يسع عساكر مصر ويصلح ميدانا للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع وهذا يزيد على فراسخ فظهر أن التحديد بحسب الأمصار اهـ."
(كتاب الصلاة،باب الجمعة،ج:2،ص:137/152،سعيد)
فتاوٰی ہندیہ میں ہے:
"(ولأدائها شرائط في غير المصلي) . منها المصر هكذا في الكافي، والمصر في ظاهر الرواية الموضع الذي يكون فيه مفت وقاض يقيم الحدود وينفذ الأحكام وبلغت أبنيته أبنية منى، هكذا في الظهيرية وفتاوى قاضي خان.وفي الخلاصة وعليه الاعتماد، كذا في التتارخانية ومعنى إقامة الحدود القدرة عليها، هكذا في الغياثية. وكما يجوز أداء الجمعة في المصر يجوز أداؤها في فناء المصر وهو الموضع المعد لمصالح المصر متصلا بالمصر."
(كتاب الصلاة، الباب السادس عشر في صلاة الجمعة،ج:1،ص:145 ط:رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604102492
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن