میرا نکاح ایک شخص سے ہوا تھا، اس سے میں بند کمرے میں ملی،اس نے زبردستی مجھے چوما ،میری دلی خواہش نہیں تھی،ابھی میں اپنے باپ کے گھر پر ہی تھی، یعنی رخصتی نہیں ہوئی تھی،پھر ایک مہینہ بعد ہی میری طلاق ہوئی اور دوسری جگہ میری شادی ہوئی،اس وقت میں نے یہ بات چھپائی، اب میری ایک بچی ہے، کیا عدت ضروری تھی اس صورت میں؟کوئی جسمانی تعلق قائم نہیں ہوا تھا، براہِ کرم وضاحت فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا مذکورہ شخص کے ساتھ نکاح کے بعد میاں بیوی دونوں کی بند کمرے میں تنہائی میں ملاقات ہوئی اور اس دوران جسمانی تعلق قائم کرنے کے لیے کوئی حسی شرعی یا طبعی عذر مانع نہیں تھا یعنی سائلہ اوراس کا شوہرکسی ایسی بیماری میں مبتلا نہیں تھے جس میں ازدواجی تعلق مضر تھا ، اسی طرح سائلہ ماہواری کی حالت میں نہیں تھی تو ایسی صورت میں دونوں کے درمیان خلوت صحیحہ قائم ہوچکی تھی اور خلوت صحیحہ شرعًا ہم بستری کے قائم مقام کہلاتی ہے ، لہذا طلاق کے بعد سائلہ پر عدت ضروری تھی ،سائلہ نےاگر عدت کے دوران یعنی تین ماہ واریاں گزرنے سے پہلے دوسرے مرد سے نکاح کیا تھا تو یہ نکاح شرعًا باطل ہے، یہ نکاح سرے سے منعقدہی نہیں ہوااور سائلہ پر لازم ہے کہ اللہ تعالی سے خوب معافی مانگے، صدق دل سے تو بہ و استغفار کرے اور اب نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے ایجاب و قبول کے ساتھ تجدید نکاح کر لیں ، باقی زیر نظر مسئلہ میں مذکورہ بچی ثابت النسب ہوگی ، البتہ اگر سائلہ نے عدت گزرنے کے بعد یعنی تین ماہواریاں گزرنے کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کیاتھا تو شرعًا یہ نکاح درست اور صحیح ہوا ۔
المبسوط للسرخسی میں ہے :
"وقضى علي رضي الله عنه في الوطء بالشبهة بسقوط الحد ووجوب مهر المثل على الواطئ والعدة على الموطوءة."
(كتاب الرضاع، باب نكاح الشبهة، ج: 30 ص: 303 ط: دار المعرفة)
بدائع الصنائع ميں ہے:
"وأما أحكام العدة فمنها أنه لا يجوز للأجنبي نكاح المعتدة لقوله تعالى {ولا تعزموا عقدة النكاح حتى يبلغ الكتاب أجله} [البقرة: 235] قيل: أي لا تعزموا على عقدة النكاح، وقيل: أي لا تعقدوا عقد النكاح حتى ينقضي ما كتب الله عليها من العدة ولأن النكاح بعد الطلاق الرجعي قائم من كل وجه، وبعد الثلاث والبائن قائم من وجه حال قيام العدة لقيام بعض الآثار، والثابت من وجه كالثابت من كل وجه في باب الحرمات احتياطا."
(كتاب الطلاق، فصل في أحكام العدة، ج: 3 ص: 204 ط: دار الكتب العلمية)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"لأن النكاح في العدة مجمع على بطلانه فيما بين المسلمين فكان باطلا في حقهم أيضا ولكن لا نتعرض لهم."
(كتاب النكاح، باب نكاح اهل الذمة، ج: 5 ص: 38 ط: دار المعرفة)
شرح مختصر الطحاوی للجصاص میں ہے:
"وأما النكاح في العدة، فقد وقع على فساد لا تلحقه إجازة بحال، فصار بمنزلة نكاح ذوات المحارم."
(كتاب النكاح، باب نكاح أهل الشرك، ج: 4 ص: 349 ط: دار البشائر الإسلامية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603101913
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن