بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانا کھانے والے کے لیے سلام کا جواب دینا / شادی کے موقع پر لفافہ دینا


سوال

1. کھانا کھانے کے دوران گفتگو کرنا جائز فرماتے ہیں۔ لیکن سلام کا جواب دینا منع فرماتے ہیں ،جب کہ سلام کرنا سنت ہے اور جواب دینا واجب ہے ۔  کھانا کھانے والا شخص واجب کا جواب نہیں دے کر گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا کہ نہیں؟

2.  شادی بیاہ میں ولیمہ کی تقریبات میں تحائف اور رقم وغیرہ دیے جاتے ہیں لفافہ میں رقم دینے کا رواج ہے یہ دینا جائز ہے یا نہیں ہے؟ 

جواب

1.  کھانے کے  دوران سلام کا جواب دینا  شرعًا نہ تو ممنوع  ہے   اور  نہ ہی واجب ہے،  کھانے والا اگر سلام کا جواب دینا چاہے تو  دے سکتا ہے،  تاہم اگر کھانے والے کے منہ میں لقمہ ہو، تو اس صورت میں سلام  کرنا مکروہ ہے، اور   کھانے میں مصروف شخص پر  سلام کا    جواب   واجب نہیں ہے۔

ملحوظ رہے کہ سلام کا جواب دینا واجب  ہے  یہ اصولی حکم ہے، تاہم اس سے بعض صورتیں مستثنیٰ ہیں، مثلًا: کوئی شخص نماز  یا تلاوت میں مصروف ہو   وغیرہ، فقہاءِ کرام نے ایسی بہت سی صورتیں بیان کی ہیں، جن  مواقع پر سلام  کرنا پسندیدہ نہیں ہے، ایسے مواقع پر  سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہوتا، منجملہ ان مواقع کے کھانا کھانے والے کو سلام کرنا بھی ہے۔

 امداد الفتاوی میں ہے:

’’سوال (۲۶۶۶): قدیم ۲۸۰/۴ - (۱) برآکل بوقت اکل سلام کردن چه حکم دارد؟

الجواب: (۲) علت کراہت سلام بر آکل عجز او از جواب نوشتہ اند و نزد من علت دیگر احتمال تشویش یا اختصاص بہ لقمہ ہم است، پس ہر کجا ہر دو علت مرتفع با شد کراہت ہم نباشد و این علت از قواعد فہمید ام نقل یادندارم - ۱۳ محرم ۱۳۳۲ھ‘‘  ( تتمہ ثانیہ ص ۱۰۷)

 (باب الحظر و الاباحہ، باب احکام سلام و تعظیم اکابر، ۹ / ۴۵۴ - ۴۵۵، ط: زکریا بک ڈپو ہند)

ترجمہ:  ’’فقہاء کرام نے کھانے والے کو سلام کرنے کے مکروہ ہونے کی علت اس کا جواب دینے سے عاجز ہونا لکھا ہے۔ اور میرے نزدیک اس کی دوسری علت اس کے تشویش میں مبتلا ہونے یا لقمہ کے حلق میں اٹک جانے کا احتمال بھی ہے، پس جس جگہ یہ دونوں علتیں نہ ہوں وہاں کراہت بھی نہ ہوگی، اور یہ علت میں قواعد سے سمجھا ہوں ، اس کی کوئی نقل صریح میرے پاس نہیں ہے۔ ‘‘

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

"أن الكراهة إنما هي في حالة وضع اللقمة في الفم، كما يظهر مما في حظر المجتبى: يكره السلام على العاجز عن الجواب حقيقة كالمشغول بالأكل أو الاستفراغ، أو شرعا كالمشغول بالصلاة وقراءة القرآن، ولو سلم لا يستحق الجواب اهـ. .... وقد نظم الجلال السيوطي المواضع التي لا يجب فيها رد السلام ونقلها عنه الشارح في هامش الخزائن فقال:

رد السلام واجب إلا على ... من في الصلاة أو بأكل شغلا

أو شرب أو قراءة أو أدعيه ... أو ذكر أو في خطبة أو تلبيه

أو في قضاء حاجة الإنسان ... أو في إقامة أو الآذان

أو سلم الطفل أو السكران ... أو شابة يخشى بها افتتان

أو فاسق أو ناعس أو نائم ... أو حالة الجماع أو تحاكم

أو كان في الحمام أو مجنونا ... فواحد من بعدها عشرونا."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ١ /  ٦١٧- ٦١٨، ط: دار الفكر)

2. شادی بیاہ کے موقع پر دولہا دولہن کو تحفہ تحائف بدلے  کی نیت کے بغیر دینا جائز ہے،  البتہ بدلہ  کی نیت سے دینا  ( یعنی کہ اس مقصد سے دینا کہ دینے والے کو بدلہ میں زیادہ ملے گا ) جسے ’’نیوتہ‘‘  کہا جاتا ہے،  قبیح رسم ہے،  اس مقصد سے دینا  شرعًا ممنوع ہے۔

 ارشادِ باری تعالی ہے:

﴿ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّه...الآية﴾  [الروم: ٣٩]

حضرت مفتي محمد شفیع  عثمانی  صاحب رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:

"وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَال النَّاسِ"، اس آیت میں ایک بری رسم کی اصلاح کی گئی ہے، جو عام خاندانوں اور اہل قرابت میں چلتی ہے۔ وہ یہ کہ عام طور پر کنبہ رشتہ کے لوگ جو کچھ دوسرے کو دیتے ہیں اس پر نظر رکھتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے وقت میں کچھ دے گا بلکہ رسمی طور پر کچھ زیادہ دے گا، خصوصاً نکاح، شادی وغیرہ کی تقریبات میں جو کچھ دیا، لیا جاتا ہے اس کی یہی حیثیت ہوتی ہے،  جس کو عرف میں نیوتہ کہتے ہیں۔ اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ اہل قرابت کا جو حق ادا کرنے کا حکم پہلی آیت میں دیا گیا ہے ان کو یہ حق اس طرح دیا جائے کہ نہ ان پر احسان جتائے اور نہ کسی بدلے پر نظر رکھے اور جس نے بدلے کی نیت سے دیا کہ ان کا مال دوسرے عزیز رشتہ دار کے مال میں شامل ہونے کے بعد کچھ زیادتی لے کر واپس آئے گا تو اللہ کے نزدیک اس کا کوئی درجہ اور ثواب نہیں اور قرآن کریم نے اس زیادتی کو لفظ ربوا سے تعبیر کر کے اس کی قباحت کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ ایک صورت سود  کی سی ہوگئی۔

مسئلہ : ہدیہ اور ہبہ دینے والے کو اس پر نظر رکھنا کہ اس کا بدلہ ملے گا  یہ تو ایک بہت مذموم حرکت ہے، جس کو اس آیت میں منع فرمایا گیا ہے۔ لیکن بطور خود جس شخص کو کوئی ہبہ عطیہ کسی دوست عزیز کی طرف سے ملے اس کے لئے اخلاقی تعلیم یہ ہے کہ وہ بھی جب اس کو موقع ملے اس کی مکافات کرے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت شریفہ یہی تھی کہ جو شخص آپ کو کوئی ہدیہ پیش کرتا تو اپنے موقع پر آپ بھی اس کو ہدیہ دیتے تھے۔ (کذاروی عن عائشہ قرطبی) ہاں اس مکافات کی صورت ایسی نہ بنائے کہ دوسرا آدمی یہ محسوس کرے کہ یہ میرے ہدیہ کا بدلہ دے رہا ہے۔"

(سورۂ روم ، ٦ / ٧٥٠، ط: مکتبہ معارف القرآن، کراچی )

رد المحتار  علي  الدر  المختار  میں ہے:

"وفي الفتاوى الخيرية: سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها، هل يكون حكمه حكم القرض؛ فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل، يلزم الوفاء به مثلياً فبمثله، وإن قيمياً فبقيمته، وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولاينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه، فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً اهـ.قلت: والعرف في بلادنا مشترك، نعم في بعض القرى يعدونه قرضاً حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى، فإذا جعل المهدي وليمةً يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه."

(کتاب الهبة، ٥ / ٦٩٦، ط: دار الفكر)

درر الحکام في شرح مجلة الأحکام میں ہے:

"الهدايا التي تأتي في الختان أو الزفاف ... (الخاتمة) إن الأشياء التي ترسل في حفلات كهذه إذا كانت تدفع عرفاً وعادةً على وجه البدل فيلزم القابض مثلها إذا كانت من المثليات وقيمتها إذا كانت من القيميات، وإذا كان لا يرسل بمقتضى العرف والعادة على وجه البدل، بل ترسل على طريق الهبة والتبرع فحكمها كحكم الهبة، ولا رجوع بعد الهلاك والاستهلاك، والأصل في هذا الباب هو أن المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً."

(الکتاب السابع الهبة، المادة: ٨٧٦، ٢ / ٤٨١ - ٤٨٢،ط: دار الجیل)

شرح المجلة لخالد الأتاسي میں ہے:

"الهدایا التي ترد في عرس الختان و الزفاف ... و هذا کله علی فرض أن المرسل هدیة، أما لو ادعی المرسل أنه قرض، ففي الفتاویٰ الخیریة ما نصه: سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها، هل يكون حكمه حكم القرض؛ فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثلياً فبمثله، وإن قيمياً فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولاينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً اهـ .قال في رد المحتار: والعرف في بلادنا مشترك، نعم في بعض القرى يعدونه قرضاً حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى، فإذا جعل المهدي وليمة يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه اهـ

 قلت: والعرف الغالب في حمص أنهم ینظرون في ذلک إلی إعطاء البدل، وعلیه فما یهدی في ذلک من أرز أو سکر أو سمن أو شاة حیة یکون قرضاً صحیحاً أو فاسداً، فیطالب به من عمل الولیمة من أب أو غیره، و مثل هذا ما یهدیه أقارب العروس من النساء و البنات بعد أسبوع من زفافها و یسمونه نقوطاً في بلادنا، فلا شک أنه قرض تستوفیه کل واحدة منهن إذا تزوجت أو زوجت بنتها في یوم أسبوعها."

(الکتاب السابع الهبة، المادة: ٨٧٦، ٣ / ٤٠١ - ٤٠٢، ط: مکتبة إسلامیة کوئٹه)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144511100794

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں