آج کل کے لوگ اولاد کے بارے میں خود فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم کو اتنی اولاد چاہیے، اس سے زیادہ نہیں چاہیے، اولاد پال نہیں سکتے، تو لوگوں کا خود سے یہ فیصلہ کرنا کہاں تک صحیح ہے؟ کیا اولاد کی تعداد کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق انسانوں کو ہے؟ اگر ہے تو کیسے ہے؟
شریعتِ مطہرہ میں نکاح کے من جملہ اغراض ومقاصد میں سے ایک اہم مقصد توالد وتناسل ہے، اور اولاد کی کثرت مطلوب اور محمود ہے، یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرتِ اولاد کی ترغیب دی ہے کہ خوب بچہ جننے کی صلاحیت رکھنے والی خواتین سے شادی کرو، اس لیے کہ میں تمہاری کثرت کے ذریعہ تمام امتوں پر (روزِ قیامت) فخر کروں گا۔لہذا اس خطرہ کے پیش نظر کہ بچے زیادہ ہوں گے تو ان کے معاش کا انتظام کیسے ہوگا، فیملی پلاننگ کرنا حرام ہے،اسی طرح کثرتِ آبادی کے خوف سے پیدائش کو محدود کرنا نظامِ خداوندی میں دخل اندازی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے جتنی جان دار مخلوق پیدا کی ہے سب کے لیے رزق کا وعدہ فرمایا ہے۔
ہاں اعذار کی بنا پر یا بچوں کی تربیت اور نگہداشت کی غرض سے مناسب وقفہ کرنا جائز ہے اور اس کے لیے عارضی طور پر مانعِ حمل کا ایسا طریقہ اور تدبیر اختیار کرنا درست ہے کہ جس سے وقتی طور پر حمل روکا جاسکے، اس طور پر کہ جب چاہیں دوبارہ توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہو۔
نیز اولاد اللہ تعالیٰ کی عظیم اور انمول نعمت ہے، اس نعمت کی قدردانی اور شکر کرنا چاہیے، اور اولاد کی کثرت سے خوش ہونا چاہیے۔ باقی جس انسان کے مقدر میں اللہ تعالیٰ جتنی اولاد لکھی ہے اس کو یہ اولاد حاصل ہو کر رہے گی ، اور یہ کسی انسان کے بس میں نہیں کہ اپنی اولاد کی تعداد کے بارے میں خود فیصلہ کرے۔
اگر کوئی شخص تنگی رزق کے خوف سے مزید اولاد کا خواہش مند نہیں ہے تو ایسی صورت میں اسے توبہ کرنی چاہیے؛ ا س لیے کہ رزق دینے والی ذات رازقِ کائنات ہے، جس نے قرآنِ مجید میں تنگی کے خوف سے بچوں کو پیدائش کے بعد قتل کرنے اور حمل کو ضائع کرکے باطنی طور پر قتل کرنے سے نا صرف منع کیا ہے، بلکہ بچوں کے رزق کی خود ذمہ داری لینے کی بشارت سنائی ہے، ارشاد ہے:
{ولا تقتلوا اولادكم خشية املاق نحن نرزقهم و إياكم}
ترجمہ:’’ اور اپنی اولاد کو فقر و فاقے کے خوف سے قتل نہ کرو، ہم ہی انہیں بھی روزی دیں گے اور تمہیں بھی۔‘‘
سنن ابی داود میں ہے:
"عن معقل بن يسارٍ- رضي الله عنه- قال: جاء رجلٌ إلى النبيّ - صلى الله عليه وسلم - فقال: إني أصبتُ امرأة ذاتَ حسبٍ وجمالٍ، وأنها لا تلد، أفأتزوّجها؟ قال: " لا"، ثمّ أتاه الثانية فنهاه، ثمّ أتاه الثالثة، فقال: "تزوّجوا الودود الولود، فإني مكاثرٌ بكم الأمم".
(أول كتاب النكاح، باب في تزويج الأبكار، ج:3، ص:395، رقم الحديث: 2050، ط: دار الرسالة العالمية)
’’حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے عرض کیا: مجھے ایک خاندانی اور خوبصورت عورت ملی ہے، مگر وہ بانجھ ہے، تو کیا میں اس سےشادی کرلوں؟ آپ نے فرمایا:(اُس سے شادی )نہیں (کرنا)،پھر وہ دوبارہ آپ کے پاس آیا تو آپ نے پھر منع فرمایا،پھر وہ تیسری بار آیا تو آپ نے فرمایا:ایسی عورت سے شادی کروجو خوب محبت کرنے والی (اور ) زیادہ بچے جننے والی ہو؛ اس لیے کہ میں تمہاری( کثرت کی) وجہ سے( قیامت کے دن) دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔‘‘
تفسیر مظہری میں ہے:
"وقوله يَهَبُ لِمَنْ يَشاءُ إِناثاً الآية قيل بيان للخلق يعنى يهب لبعض الناس أنثى لا يكون له ولد ذكر قيل من يمن المرأة تبكيرها بالأنثى قبل الذكر لان الله تعالى بدا بالإناث وَيَهَبُ لِمَنْ يَشاءُ الذُّكُورَ (49) فلا يكون له أنثى.
أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْراناً وَإِناثاً فيجمع له بينهما فيولد له الذكور والإناث وَيَجْعَلُ مَنْ يَشاءُ عَقِيماً فلا يولد له وقيل الجملة بدل من يخلق بدل البعض إِنَّهُ عَلِيمٌ بما يخلق قَدِيرٌ (50) على ما يشاء فيفعل بحكمته واختياره".
(التفسير المظهري، سورة الشوري، الآية:49-50 ، ج8/ ص332،الناشر: مكتبة الرشيدية)
مسلم شریف میں ہے:
"(22) باب حكم العزل
125 - (1438) وحدثنا يحيى بن أيوب وقتيبة بن سعيد وعلي بن حجر. قالوا: حدثنا إسماعيل بن جعفر. أخبرني ربيعة عن محمد ابن يحيى بن حبان، عن ابن محيريز؛ أنه قال:
دخلت أنا وأبو صرمة على أبي سعيد الخدري. فسأله أبو صرمة فقال: يا أبا سعيد! هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر العزل؟ فقال: نعم. غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة بالمصطلق. فسبينا كرائم العرب. فطالت علينا العزبة ورغبنا في الفداء. فأردنا أن نستمتع ونعزل. فقلنا: نفعل ورسول الله صلى الله عليه وسلم بين أظهرنا لا نسأله! فسألنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: "لا عليكم أن لاتفعلوا. ما كتب الله خلق نسمة هي كائنة إلى يوم القيامة، إلا ستكون"........
133 - (1438) حدثني هارون بن سعيد الأيلي. حدثنا عبد الله بن وهب. أخبرني معاوية (يعني ابن صالح) عن علي بن أبي طلحة عن أبي الوداك، عن أبي سعيد الخدري. سمعه يقول: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن العزل؟ فقال:"ما من كل الماء يكون الولد. وإذا أراد الله خلق شيء لم يمنعه شيء."
(صحيح مسلم، كتاب النكاح،2/ 1061-1064 ،الناشر: مطبعة عيسى البابي الحلبي)
وفيه أيضا:
"عن عائشة عن جذامة بنت وهب أخت عکاشة، قالت: حضرت رسول الله صلي الله عليه وسلم … ثم سألوه عن "العزل"؟ فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم: ذلک الوأد الخفي". وزاد عبید الله في حدیثه عن المقرئ: ﴿وَاِذَا الْمَوْؤدَةُ سُئِلَتْ﴾".
(باب جواز الغیلة، وهی وطی المرضع وکراهة العزل،۱/۴۶۶،النسخة الهندیة )
سنن ابو داؤد میں ہے:
حدثنا موسى بن إسماعيل ، حدثنا أبان ، حدثنا يحيى ، أن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان حدثه ، أن رفاعة حدثه ، عن أبي سعيد الخدري ، أن رجلا قال : يا رسول الله ، إن لي جارية وأنا أعزل عنها ، وأنا أكره أن تحمل وأنا أريد ما يريد الرجال ، وإن اليهود تحدث أن العزل موءودة الصغرى ، قال : " كذبت يهود ، لو أراد الله أن يخلقه ما استطعت أن تصرفه ".
(سنن أبي داود - كتاب النكاح - باب ما جاء في العزل، جزء: 2 - صفحة: 252، رقم الحديث: 2171،ط: المكتبة العصرية)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة، نهر بحثاً، (بإذنها)، لكن في الخانية أنه يباح في زماننا؛ لفساده، قال الكمال: فليعتبر عذراً مسقطاً لإذنها، وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج، (وعن أمته بغير إذنها) بلا كراهة.
(قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطاً لإذنها. اهـ. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة، وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب؛ لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح، وبه جزم القهستاني أيضاً حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء؛ لفساد الزمان، وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ. لكن قول الفتح: فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لايبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان، فافهم".
(فتاوی شامی،كتاب النكاح،مطلب في حكم العزل، 3/ 175، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602100999
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن