کیافرماتے ہیں مفتیان دین متین کہ بعض حضرات کھارے/کڑوے پانی کو کیمیکل سے میٹھا بناتے ہیں، بعدازاں کیمیکل سے بنائے گئے میٹھے پانی کو فروخت کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اس پانی کو فروخت کرتے وقت یہ صراحت ضروری ہے کہ یہ حقیقت میں کھاراپانی تھا، کیمیکل سے میٹھا بنایا گیا ہے؟ یا اس وضاحت کے بغیر مطلق میٹھا اور صاف پانی کے عنوان سے فروخت کیاجاسکتا ہے؟
عمومًا پانی کو فروخت کرنے والے کیمیکل کا استعمال کرکے ہی لوگوں کو پانی فروخت کرتے ہیں،باقی اگر لوگوں کو اشتباہ ہو کہ کھارے پانی کو میٹھا کرکے بیچا جارہا ہے یا میٹھے پانی میں ہی منرلز ملاکر فروخت کیا جارہا ہے،اور ایک میں رغبت ہو اور دسرے کو ناپسند کرتے ہوں تو پھر بتاکر بیچنا چاہیے،ورنہ دھوکے کا اندیشہ ہے،لیکن اگر لوگوں کوپہلے سے معلوم ہے کہ فلاں شخص بورنگ کا کھارا پانی میٹھا کرکے بیچتا ہے وغیرہ تو پھر لوگوں کی معلومات پراکتفاء کرتے ہوئے نہ بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
"وأما التدليس بكتمان الحقيقة، وهو الصورة المشهورة في الفقه باسم (التدليس): فهو إخفاء عيب في أحد العوضين، كأن يكتم البائع عيبا في المبيع، كتصدع في جدران الدار وطلائها بالدهان أو الجص، وكسر في محرك السيارة، ومرض في الدابة المبيعة، أو يكتم المشتري عيبا في النقود ككون الورقة النقدية باطلة التعامل، أو زائلة الرقم النقدي المسجل عليها، أو ذهب أكثر من خمسها.
وحكم هذا النوع: أنه حرام شرعا باتفاق الفقهاء ، لقول النبي: «المسلم أخو المسلم، لا يحل لمسلم باع من أخيه بيعا، وفيه عيب، إلا بينه له» وقوله عليه السلام: «من غشنا فليس منا."
(القسم الثاني: النظريات الفقهية،ج4،ص3071،ط؛دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510101454
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن