بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کھڑے ہو کر اور رات کے وقت کنگھی کرنے کا حکم


سوال

بعض خواتین کا کہنا ہے کہ کھڑے ہوکر کنگھی کرنے سے بال بال قرض میں جکڑ جاتا ہے اور یہ کہ کھڑے ہو کر کنگھی کرنا یا رات کے وقت کنگھی کرنا سنتِ نبوی کے مطابق ممنوع ہے۔

براہِ کرم رہنمائی فرمادیں کہ آیا صحیح احادیث یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قولی یا فعلی سنتِ طیبہ میں کھڑے ہوکر یا رات کے وقت کنگھی کرنا ممنوع یا ناپسندیدہ فعل ہے؟ یا مذکورہ بالا بات محض ایک کہاوت ہے یا یہ کہ کسی بزرگ کا قول وغیرہ ہے؟

جواب

احادیثِ مبارکہ میں بالوں میں کنگھی کرنے سے متعلق جو بات ملتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کنگھی فرمانے میں  دائیں جانب سے شروع کرنے کو پسند فرماتے  تھے، نیز بعض روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو لیٹتے تو آپ ﷺ کے لیے وضو کا پانی، مسواک اور کنگھی رکھ دی جاتی، جب اللہ تعالیٰ آپ کو رات کو اٹھاتے تو آپ ﷺ مسواک کرتے اور وضو کرتے اور کنگھی کرتے۔

لہذا مسنون یہ ہے کہ جب بالوں میں کنگھی کرنے کا ارادہ ہو تو اولاً سر کے دائیں حصے میں کنگھی کی جائے، پھر بائیں میں۔ اور رات کے وقت بھی کنگھی کرنے میں حرج محسوس نہ کیا جائے۔

اس کے علاوہ باقی باتیں کہ "کھڑے ہوکر کنگھی کرنے سے بال بال قرض میں جکڑ جاتا ہے" یا "رات کے وقت کنگھی کرنا سنتِ نبوی کے مطابق ممنوع ہے" اور اس جیسی دیگر باتیں  بے اصل ہیں، اس کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں، جس چیز کا کرنا یا نہ کرنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہ ہو، اس کے بارے سنت کی طرف نسبت کرکے بات منسوب کرنا جائز نہیں ہے، اور یہاں تو روایت میں رات کے وقت کنگھی کرنے کا ذکر موجود ہے؛ لہٰذا رات کے وقت کنگھی کی ممانعت سمجھنا بھی غلط ہے، اور اسے سنتِ نبویہ (علی صاحبہا الف الف تحیہ) کی نسبت سے بیان کرنا مستقل طور پر غلطی ہے۔

السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي (1/ 26):

"عن أنس قال: كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا أخذ مضجعه من الليل وضع طهوره وسواكه ومشطه، فإذا هبه الله تعالى من الليل استاك وتوضأ وامتشط."

صحيح مسلم - عبد الباقي (1/ 226):

"عن عائشة قالت  إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليحب التيمن في طهوره إذا تطهر وفي ترجله إذا ترجل وفي انتعاله إذا انتعل."

قوت المغتذي على جامع الترمذي (1/ 236):

"وفي ترجُّله" هو تسريح الشعر وتنظيفه."

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144203200426

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں