ہمارا لکڑیوں کا کاروبار ہے، لکڑی خریدتے وقت ہم جب وزن کرتے ہیں تو ایک من میں سے تقریبا پانچ کلو کی قیمت کاٹتے ہیں، بالفرض 200 من لکڑی میں سے ہم 25 من لکڑی کی قیمت کاٹ دیتے ہیں، ہم ان کو کہتے ہیں کہ لکڑی گیلی ہے ، خواہ لکڑی گیلی ہو یا نہیں ہو، اسی طرح لکڑی پر مٹی ہو یا نہ ہو ، ہم پانچ کلو فی من کے حساب سے قیمت کاٹ کر دکاندار کو ادا کرتے ہیں، لیکن جب ہم وہی لکڑی خود فروخت کرتے ہیں تو پورے وزن کے حساب سے لکڑی فروخت کرتے ہیں اور لکڑی خواہ گیلی ہی کیوں نہ ہو، یعنی چالیس کلو دیتے ہوئے پانچ کلو فی من کے حساب سے قیمت کم نہیں کرتے بلکہ پورے 40 کلو کی قیمت وصول کرتے ہیں اور یہ طریقہ پوری مارکیٹ میں عرصہ دراز سے رائج ہے ، کیا اس طرح کرنا جائز ہے یا جائز نہیں ہے ؟
صورت مسئولہ میں لکڑیوں کی خریداری کے وقت جو وزن ہو، اس کے حساب سے قیمت ادا کرنا لازم ہوگا، خواہ لکڑیاں گیلی ہوں یا خشک ہوں، اسی طرح مذکورہ لکڑیاں آگے فروخت کرتے وقت ان کا جو وزن ہو، اس حساب سے قیمت طے کرکے وصول کرنا ضروری ہوگا، پس سائل نے جو طریقہ بیان کیا ہے کہ فی من پانچ کلو وزن کم کرکے قیمت ادا کرنا جائز نہیں ہوگا، اس صورت میں فی من پانچ کلو کی قیمت واجب الأداء رہے گی، البتہ اس کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ کل مال کی خریداری کے وقت جو قیمت طے کی جائے وہ ابتدائی طور پر کم طے کرلی جائے، اور اس کی مطابق کل قیمت خریدار ٹال والے کو قیمت ادا کردے۔ مثلا ایک من لکڑی کی قیمت اگر پچاس ہزار بنتی ہو، قیمت کی ادائیگی کے وقت پانچ کلو کی قیمت مثلا پانچ ہزار کم کرکے دینے کے بجائے ابتداءً ہی ایک من کی قیمت مثلا پینتالیس ہزار طے کی جائے، اور طے شدہ مکمل قیمت ادا کی جائے۔
البتہ اگر ٹمبر مارکیٹ میں فی من پانچ کلو لکڑی کی قیمت فروخت کنندہ کی جانب سے برضا و خوش چھوڑنے کا رواج عام ہو، تو اس صورت میں فی من پانچ کلو لکڑی کی قیمت کم دینے کی گنجائش ہوگی۔
رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:
"و شرعا: (مبادلة شيء مرغوب فيه بمثله) خرج غير المرغوب كتراب وميتة ودم على وجه) مفيد.
(قوله: مرغوب فيه) أي ما من شأنه أن ترغب إليه النفس وهو المال؛ ولذا احترز به الشارح عن التراب والميتة والدم فإنها ليست بمال، فرجع إلى قول الكنز والملتقى: مبادلة المال بالمال؛ ولذا فسر الشارح كلام الملتقى في شرحه بقوله: أي تمليك شيء مرغوب فيه بشيء مرغوب فيه، فقد تساوى التعريفان فافهم، نعم زاد في الكنز بالتراضي."
(كتاب البيوع، ٤ / ٥٠٢، ط: دار الفكر)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وأما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع إذا كان البيع باتا وإن كان موقوفا فثبوت الملك فيهما عند الإجازة كذا في محيط السرخسي."
(كتاب البيوع، الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ٣ / ٢، ط: دار الفكر)
درر الحكام فی شرح مجلۃ الأحكام میں ہے:
[(المادة ٢٥٦) حط البائع مقدارا من الثمن المسمى بعد العقد]
"(المادة ٣٥٦) حط البائع مقدارا من الثمن المسمى بعد العقد صحيح ومعتبر مثلا لو بيع مال بمائة قرش ثم قال البائع بعد العقد حططت من الثمن عشرين قرشا كان للبائع أن يأخذ مقابل ذلك ثمانين قرشا فقط إن هبة البائع مقدارا من الثمن المسمى للمشتري أو حطه مقدارا منه عنه أو إبراءه من بعضه بعد العقد صحيح ومعتبر سواء أكان المبيع قائما أم هالكا حقيقة أم حكما وسواء أكان البائع قد قبض الثمن أم لم يقبضه ولا يشترط في هذا الحط قبول المشتري لأن الحط إبراء والإبراء لا يتوقف على القبول."
(الكتاب الأول، البيوع، الباب الرابع بيان المسائل المتعلقة في الثمن والمثمن بعد العقد، الفصل الثاني في بيان التزييد والتنزيل في الثمن والمبيع بعد العقد، ١ / ٢٤١، ط: دار الجيل)
درر الحكام فی شرح مجلۃ الأحكام العدليۃ میں ہے:
[(المادة ٤٣) المعروف عرفا كالمشروط شرطا]
"المعروف عرفا كالمشروط شرطا وفي الكتب الفقهية عبارات أخرى بهذا المعنى " الثابت بالعرف كالثابت بدليل شرعي " و " المعروف عرفا كالمشروط شرعا " و " الثابت بالعرف كالثابت بالنص " والمعروف بالعرف كالمشروط باللفظ، وقد سبق لنا أن عرفنا العرف والعادة. فإليك الأمثلة على هذه القاعدة: لو اشتغل شخص لآخر شيئا ولم يتقاولا على الأجرة ينظر للعامل إن كان يشتغل بالأجرة عادة يجبر صاحب العمل على دفع أجرة المثل له عملا بالعرف والعادة، وإلا فلا، ... (المادة ٤٤) : المعروف بين التجار كالمشروط بينهم."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ١ / ٥١، ط: دار الجيل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102254
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن