میں سعودی عرب میں رہتا ہوں ،میں مارکیٹ گیا ،میں نے مارکیٹ سے کچھ چیزیں خریدیں ،تو مارکیٹ والوں نے مجھے انعام دیا ،تو اس کو استعمال کرنا جائز ہے؟
واضح رہے کہ دوکان دار کا کسٹمر (گاہک) کو مخصوص خریداری کرنے کی صورت میں انعام کی آفر دینے کا حکم یہ ہے، کہ اگر اس میں مندرجہ ذیل شرائط پائی جائیں تو یہ معاملہ جائز ہوگا، ورنہ جائز نہیں ہوگا:
1: دوکان دار نے سامان کی قیمت اتنی ہی مقرر کی ہو جو کہ مارکیٹ میں ایسے سامان کی رائج ہو، یعنی دوکان دار نے اس سامان کی عام قیمت میں انعام کی بنا پر اضافہ نہ کیا ہو ، اگر دوکان دار انعامی اسکیم کی بنا پر مارکیٹ ریٹ (ثمن مثل) سے زیادہ ریٹ (قیمت) رکھے گا تو گویا خریدار (گاہک) انعام کی امید اور لالچ میں اس دوکان سے سامان مہنگے داموں خرید رہا ہے، جب کہ انعام کا ملنا یقینی نہیں، بلکہ موہوم ہے، اس طرح یہ معاملہ جوئے (قمار) کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔
2: دوکان دار انعامی اسکیم کو اپنی ناقص مصنوعات کے نکالنے کا ذریعہ نہ بنائے، یعنی انعام کی لالچ دے کر لوگوں کو اپنی ناقص مصنوعات خریدنے کی طرف راغب نہ کرے، ورنہ اس میں بھی جوئے (قمار) کی مشابہت آجائے گی۔
3: دوکان سے مذکورہ سامان خریدنے والے گاہک (کسٹمر) کا مقصود اس خریداری سے واقعی دوکان کا سامان حاصل کرنا اور اس سے نفع اٹھانا ہو، یعنی سامان مقصود ہو، موہوم انعام کا حصول مقصود نہ ہو، بلکہ انعام ایک ضمنی اور تبعی چیز ہو کہ اگر دوکان دار کی طرف سے بطور تبرع مل جائے تو ٹھیک اور نہ ملے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں، لیکن اگر گاہک کو سامان کی کوئی ضرورت نہ ہو اور وہ یہ خریداری فقط موہوم انعام حاصل کرنے کی لالچ میں کرے ،تو پھر یہ معاملہ جوئے (قمار) کی مشابہت اختیار کر لے گا اور ناجائز ہوگا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شرائط کی مکمل رعایت رکھی جائے ،تو دوکان دارکا گاہک کو انعام دینا دوکان دار کی طرف سے تبرع اور احسان شمار ہوگا ،اور گاہک (کسٹمر) کے لیے اس انعام کا لینا جائز ہوگا، لیکن اگر مذکورہ شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی موجود نہ ہو تو اس صورت میں یہ معاملہ جائز نہیں ہوگا۔
قرآن کریم میں ہے:
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"[المائدة:90 ]
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
"وقال قوم من أهل العلم: القمار كله من الميسر وأصله من تيسير أمر الجزور بالاجتماع على القمار فيه وهو السهام التي يجيلونها فمن خرج سهمه استحق منه ما توجبه علامة السهم فربما أخفق بعضهم حتى لايخطئ بشيء وينجح البعض فيحظى بالسهم الوافر وحقيقته تمليك المال على المخاطرة وهو أصل في بطلان عقود التمليكات الواقعة على الأخطار كالهبات والصدقات وعقود البياعات ونحوها إذا علقت على الأخطار ... ولأن معنى إيسار الجزور أن يقول من خرج سهمه استحق من الجزور كذا فكان استحقاقه لذلك السهم منه معلقاً على الحظر".
(سورۃ المائدۃ، آیۃ:90 ، باب تحریم الخمر، ج:4، ص:127، ط: دار احیاء التراث العربی۔بیروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي الأقضية قسم الهدية وجعل هذا من أقسامها فقال: حلال من الجانبين كالإهداء للتودد."
(كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية، ج:5، ص:362، ط: سعید)
و فیہ ایضاً:
"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."
(کتاب الحظر و الاباحۃ، فصل فی البیع، ج:6، ص:403، ط: سعید)
محیط بر ہانی میں ہے:
"القرعة ثلاث: الأولى لإثبات حق وإبطال حق آخر وإنها باطلة، كمن أعتق أحد عبديه بغير عينه، ثم تعين بالقرعة، والأخرى لطيبة النفس، وإنها جائزة كما يقرع بين النساء ليسافر بها، والثالث لإثبات حق واحد وفي مقابلة مسألة ليقر بها كل حق كالقسمة وهو جائز والله أعلم."
(كتاب القسمة، الفصل السادس: في الخيار في القسمة، ج:7، ص:356، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101503
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن