بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

خاص مسجد میں نماز پڑھنے کی نذر ماننا


سوال

ایک عورت نے نذر مانی  کہ اگر میرا باپ بیماری سے تندرست ہوجائے تو میں فلاں مسجد میں دو رکعت نماز ادا کروں گی، اب کیا اس عورت کو اس مسجد میں جاکر دو رکعت نماز ادا کرنی پڑے گی؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں نماز  کی نذر ماننا تو درست ہے  البتہ مسجد کی  تخصیص کے ساتھ چوں کہ کوئی عبادت مقصودی نہیں ہے؛  اس لیےمذکورہ عورت کے لیے مسجد  کی تعیین کے بغیر مطلقًا دو رکعت پڑھنانذر کی وجہ سے  لازم ہوگا۔مسجد میں جا کر پڑھنا ضروری نہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

(ومنها) أن يكون قربة فلا يصح النذر بما ليس بقربة رأسا كالنذر بالمعاصي بأن يقول: لله - عز شأنه - علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلانا أو أضربه أو أشتمه ونحو ذلك، لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا نذر في معصية الله تعالى

 (ومنها) أن يكون قربة مقصودة، فلا يصح النذر بعيادة المرضى وتشييع الجنائز والوضوء والاغتسال ودخول المسجد ومس المصحف والأذان وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك وإن كانت قربا؛ لأنها ليست بقرب مقصودة...... ومن مشايخنا من أصل في هذا أصلا فقال: ما له أصل في الفروض يصح النذر به.

(جلد۵، ص:۸۲، ط: دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144505102067

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں