بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ختم قرآن کے موقع پرچندہ کر کے مٹھائی تقسیم کرنا اور امام کو ہدیہ دینا


سوال

رمضان المبارک میں ہمارے یہاں ختم قرآن کے موقع پر مٹھائی تقسیم کی جاتی ہے ، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ممبران کمیٹی کے پاس ایک پرچی ہوتی ہے ، ہر آدمی اپنی وسعت سے مٹھائی اور امام صاحب کو ہدیہ ، کپڑے مٹھائی دی جاتی ہے۔

آیا اس طرح سے پیسے وصول کرکے مٹھائی تقسیم کرنا اور امام کو ہدیہ دینا کیسا ہے؟ نیز ختم قرآن کے موقع پر جلسہ کرنا ، بیانات کی ویڈیو بنانا اور تسبیح و تکبیر کے بآواز بلند نعرے لگانا کیسا ہے؟

جواب

رمضان المبارک میں ختم قرآن کے موقع پرقرآن سنانے کی وجہ سے  چندہ کر کے امام صاحب کو ہدیہ دینا شرعا درست نہیں ہے، اس کو ترک کرنا ضروری ہے۔ ہاں  اگر نمازی حضرات چندہ کرنے کے بغیر انفرادی طور پر  امام کو ہدایا دیتے ہیں تو یہ جائز ہے بلکہ حوصلہ افزائی کرنی چاہیے  تاکہ مسلمانوں   کے بچوں پر اچھا اثر پڑے۔

ختم قرآن کے موقع پر لوگوں کے اجتماع کا فائدہ اٹھا کر  جلسہ کرنا یعنی لوگوں کی اصلاح کی کاخاطر وعظ کرنا جائز ہے بلکہ مستحب ہے، لیکن ان بیانات کی ویڈیو اور تصویر بنانا کبیرہ گناہ ہے، اس سے کلی طور پر اجتناب کرنا چاہیے ، اسی طرح مسجد میں اللہ اکبر کا نعرہ  لگانے کی گنجائش ہے بشرطیکہ دوسرے عبادت کرنے والوں کی عبادت میں خلل نہ ہو اور مسجد کے آداب کے خلاف ورزی نہ ہو ۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(" لا يحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه".

(مرقاة المفاتيح شرح مشکاۃ المصابیح: باب الغضب والعارية (5/ 1974)، ط. دار الفكر)

البحر الرائق میں ہے:

"أخرجه المنذري مرفوعا : (جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم وبيعكم وشراءكم ورفع أصواتكم وسل سيوفكم وإقامة حدودكم وجمروها في الجمع واجعلوا على أبوابها المطاهر)."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة و ما يكره فيها، ج:2، ص:37، ط: دار الكتاب الإسلامي)

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن أسلم - مولى عمر - قال: قال عمر بن الخطاب: أتحبون أن أعلمكم أول إسلامي؟....فقلت: دلوني على رسول الله صلى الله عليه وسلم أين هو؟. فلما عرفوا الصدق، دلوني عليه في المنزل الذي هو فيه. فجئت حتى قرعت الباب، فقالوا: من هذا؟ قلت: عمر بن الخطاب، وقد علموا شدتي على رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يعلموا بإسلامي، فما اجترأ أحد منهم أن يفتح لي حتى قال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «افتحوا له ; فإن يرد الله به خيرا يهده» ". قال: ففتح لي الباب، فأخذ رجلان بعضدي حتى دنوت من رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «أرسلوه» ". فأرسلوني فجلست بين يديه، «فأخذ بمجامع قميصي، ثم قال: " أسلم يا ابن الخطاب، اللهم اهده ". فقلت: أشهد أن لا إله إلا الله، وأنك رسول الله». قال: فكبر المسلمون تكبيرة سمعت في طرق مكةالخ."

(باب مناقب عمر ، باب فی اسلامہ، ج نمبر ۹، ص نمبر ۶۳، مکتبۃ القدسی)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

’’سوال : 1۔ رمضان المبارک میں تراویح میں ختم قرآن ہوتا ہے اس دن شیرینی تقسیم کرنا کیسا ہے؟ بینوا تؤجروا۔

2۔ شیرینی صرف ایک شخص کی طرف سے تقسیم ہوتی ہے۔ چندہ نہیں کرتے تو یہ درست ہے یا نہیں؟

3۔شیرینی جماعت خانہ میں تقسیم کرسکتے ہیں یا صحن میں کی جائے؟بینوا تؤجروا۔

الجواب:1۔ضروری نہیں ہے، لوگوں نے اسے ضروری سمجھ لیا ہے اور بڑی پابندی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے، لوگوں کو چندہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، مسجدوں میں بچوں کا اجتماع اور شور و غل وغیرہ خرابیوں کے پیشِ نظر اس دستور کو موقوف کردینا ہی بہتر ہے۔

2۔امامِ تراویح یا اور کوئی ختمِ قرآن کی خوشی میں کبھی کبھی شیرینی تقسیم کرے اور مسجد کی حرمت کا لحاظ رکھا جائے تو درست ہے۔

3۔مسجد کا فرش خراب نہ ہو، خشک چیز ہو اور مسجد کی بے حرمتی لازم نہ آئے تو درست ہے، بہتر یہ ہے کہ دروازے پر تقسیم کردیا جائے۔

فقط واللہ اعلم بالصواب.‘‘

(مسائلِ تراویح، ج:6، ص:243-244، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100114

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں