بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

خدمات کے عوض ملنے والی رقم پر زکاۃ


سوال

میں اور میرا پارٹنر ایک فیکٹری چلاتے ہیں ہم پارٹی سے دھاگہ لے کر تولیہ بناکے سلائی کر کے پیک کرکے پارٹی کو دیتے ہیں،ہم یہ کام 6 مہینے سے کر رہے ہیں، ہمارا اپنا اثاثہ 2 کروڑ ہے اور پارٹی سے 6 کروڑلینے ہیں ،ہماری زکات کیا ہوگی؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل اور اس کے پارٹنر کا کام متعلقہ  پارٹی کو اسی کے دھاگہ سے تولیے تیار کرکے دینے کا ہے ،یعنی یہاں سائل اور اس کا پارٹنر  متعلقہ پارٹی کو اپنی خدمات متعینہ  اجرت کے عوض فراہم  کرہے ہیں ،لہذا زکات اس کام سے حاصل ہونے والی آمدنی اور اجرت پر آئے گی ،فیکٹری اور اس میں موجود مشینوں کی مالیت پر زکات نہیں ہوگی۔

نیز خدمات اور   سروسز کے کام میں جب تک خدمات فراہم کرنے والے کو اس کی اجرت نہیں مل جائے وہ اس کا مالک نہیں بنتا، اجرت کی رقم ملنے کے بعد وہ شخص اس کا مالک ہوتا ہے، لہذا جب تک اجرت نہ ملے اس پر زکات بھی  واجب نہیں ہے،اجرت ملکیت میں آنے کے بعد زکات واجب ہوگی۔

چنانچہ صورت مسئولہ میں اجرت کی رقم وصول ہوجانے کے بعد اگر سائل اور اس کا شریک  پہلے سے صاحبِ نصاب ہوں  تو اپنے دیگر قابلِ زکات اموال  کے سال پورا ہونے پر اس اجرت کی مد میں ملنے والی رقم میں سے جو موجود ہو اس کی زکات بھی ادا کرنا لازم ہوگی، اگرچہ اس  رقم پر الگ سے مکمل سال نہ گزرا ہو۔ اور اگر پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں ہیں تو اجرت کی رقم ملنے کے بعد (جب کہ وہ نصاب کے بقدر ہو) جب اس پر سال مکمل ہوگا تو زکات دینا لازم ہوگی، ورنہ نہیں ۔

نیز اس اجرت میں سے جو رقم سال کے دوران (زکات کا سال پورا ہونے سے پہلے)خرچ ہو جائے اس پر زکات واجب نہیں ہوگی۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك كما أشار إليه القدوري في مختصره؛ لأنها لو كانت ديناً لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها".

(7 / 300، کتاب الاجارۃ، ط: سعید) 

         فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وأما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -: ضعيف، وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلاً عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلاً عن شيء كالوصية أو بفعله بدلاً عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصاباً و يحول عليه الحول".

(1/ 175،کتاب الزکوۃ، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ط: رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609101696

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں