واضح رہے کہ خون اتنی مقدارمیں نکلے کہ نکل کر بہہ جائے تواس سے وضوٹوٹ جائے گا،خون کے بہنے کی تعریف یہ کہ زخم کے سرے سے اوپر اٹھ کر نیچے کو اترے۔
صورتِ مسئولہ میں ا گر خون دانے کے سر سے نکلے، لیکن گول نشان کی بجائے، لمبا(لائن نما) یا بیضوی نشان بنائے،گویا یہ خون اپنی جگہ سے بڑھ گیا،اب یہ بہنے کے حکم میں ہے،لہذا یہ نا قض وضو ہے۔
بہشتی زیور میں ہے:
کسی نے اپنے پھوڑے یا چھالے کے اوپر کا چھلکا نوچ ڈالا اور اس کے نیچے خون یاپیپ دکھائی دینے لگا،لیکن خون یاپیپ اپنی جگہ ٹھہرا ہے، کسی طرف نکل کر بہا نہیں تو وضو نہیں ٹوٹا اور اگربہہ پڑا تووضو ٹوٹ جائے گا۔
(ج:1،ص:14،ط: مجلس نشریات اسلام)
البناية شرح الهداية میں ہے:
"فإن قشرت نفطة فسال منها ماء أو صديد أو غيره إن سال عن رأس الجرح نقض الوضوء، وإن لم يسل لا ينقض."
(كتاب الطهارات،ج:1،ص:309،دار الكتب العلمية)
فتح القدیر میں ہے:
"وفي المحيط: حد السيلان أن يعلو وينحدر عن أبي يوسف، وعن محمد إذا انتفخ على رأس الجرح وصار أكبر من رأسه نقض، والصحيح لا ينقض."
(كتاب الطهارات،ج:1،ص:39،دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے :
"(وينقضه) خروج منه كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر (منه) أي من المتوضئ الحي معتادا أو لا، من السبيلين أو لا (إلى ما يطهر) بالبناء للمفعول: أي يلحقه حكم التطهير.ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة، لما قالوا: لو مسح الدم كلما خرج ولو تركه لسال نقض وإلا لا، كما لو سال في باطن عين أو جرح أو ذكر ولم يخرج."
(كتاب الطهارات،ج:1،ص:134،دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601102074
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن