بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

خوبصورتی کے لیے جانوروں کے سینگ کاٹنے کا حکم


سوال

1۔ہمارے ہاں لوگ گائے کے سینگ جڑ سے کاٹتے ہیں تاکہ زیادہ خوب صورت نظر آئے، اس لیے کہ  فروخت کرتے وقت خوب صورتی کی وجہ سے زیادہ قیمت ملتی ہے، جب کہ سینگ کاٹتے وقت گائے کو بہت سخت تکلیف ہوتی ہے۔ کیا شرعاً ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟

2۔اسی طرح گائے کو خوب صورت بنانے کے لیےرنگ بھی دیا جاتا  ہے تاکہ فروخت کرتے وقت خوب صورتی کی وجہ سے زیادہ قیمت ملے، تو کیا اس طرح رنگ دینا جائز ہے؟

جواب

1۔بلاوجہ جانوروں کو تکلیف دینا بھی شرعاً حرام ہے، لہٰذا اگر جانور کو  سینگوں کے اکھاڑنے یا جڑ سے کاٹنے کی صورت میں سخت تکلیف ہوتی ہو تو محض قیمت کی زیادتی اور  خوبصورتی کے لیے جانور  کو یہ تکلیف دینا جائز نہیں ہے۔

2۔اگر گائے یا دیگر جانوروں کو رنگ دینے سے کوئی تکلیف نہ ہوتی ہواور نہ ہی رنگ کرنے کی وجہ سے گاہک کا کسی دھوکہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ  ہو تو جانور کو   خوبصورتی کے لیے رنگ کرناجائز ہوگا،اور اگر گاہک کو دھوکہ ہوتا ہو تو جائز نہیں ہو گا۔

چناں چہ سنن أبی داؤد میں ہے :

اتقوا ‌الله في هذه ‌البهائم المعجمة."

(كتاب الجهاد، ‌‌باب ما يؤمر به من القيام على الدواب والبهائم، ج : 3، ص : 23، ط : المكتبة العصرية)

  ترجمہ :

”ان بے زبان حیوانات کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔“

بخاری میں  ہے :

"عن عبدالله بن عمر  رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : عذبت ‌امرأة ‌في ‌هرة سجنتها حتى ماتت فدخلت فيها النار لا هي أطعمتها ولا سقتها إذ حبستها ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض."

(كتاب أحاديث الأنبياء، باب حدثنا أبو اليمان، ج : 4، ص : 177، ط : السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية)

ترجمہ :

”عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا : ایک عورت کو اس سبب سے عذاب دیا گیا کہ اس نے بلی کو قيد رکھا اور اسی حالت میں وہ بھوک کی وجہ سے مرگئی، اورعورت بلی کی وجہ سے آگ میں داخل ہوئی ، وہ عورت اس بلی کو نہ کھلاتی تھی اور نہ چھوڑتی تھی کہ زمین کے جانوروں کو کھا لے۔“

نیل الاوطار میں ہے :

"وفيه دليل على تحريم خصي الحيوانات، وقول ابن عمر " فيها نماء الخلق " أي زيادته إشارة إلى أن الخصي مما تنمو به الحيوانات، ولكن ليس كل ما كان جالبا لنفع يكون حلالا بل لا بد من عدم المانع، وإيلام الحيوان ههنا مانع لأنه إيلام لم يأذن به الشارع بل نهى عنه."

(كتاب الجهاد والسير، أبواب السبق والرمي، ‌‌باب النهي عن صبر البهائم وإخصائها والتحريش بينها ووسمها في الوجه، ج : 8، ص : 99، ط : دار الحديث)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے :

"ولأبي حنيفة أنه مثلة والمثلة منهي عنها ولو وقع التعارض بكونه مثلة وكونه سنة فالترجيح للمحرم لأن النبي عليه الصلاة والسلام نهى عن ‌إيلام ‌الحيوان إلا لمأكلة. وهذا إيلام لغير مأكلة."

(کتاب الحج، ‌‌باب التمتع، ج : 1، ص : 166، ط : المطبعة الخيرية)

التجرید للقدوری میں ہے :

" لنا: نهيه عليه الصلاة والسلام عن تعذيب الحيوان، وعن ‌إيلام ‌الحيوان. وروي أنه عليه [الصلاة] والسلام (نهى عن المثلة،) وهو أن يصنع بالحيوان ما يصير به مثلاً."

(كتاب الحج، ‌‌مسألة 558حكم إشعار البدن، ج : 4، ص : 2182، ط : دار السلام)

موسوعۃ صناعۃ الحلال میں ہے :

"ولا يجوز تعذيب الحيوان أو إيذاؤه بأي طريقة مهما كانت، سواء عند الذبح أو قبله أو بعده قبل خروج النفس منه؛ لعموم قول النبي صلى الله عليه وسلم: (إن الله كتب الإحسان على كل شيء، فإذا قتلتم فأحسنوا القتلة، وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبح، وليحد أحدكم شفرته، وليرح ذبيحته) رواه مسلم."

(الباب الثالث، الفصل الأول، ‌‌تعذيب الحيوان أو إيذاؤه عند الذبح، ج : 2، ص : 221، ط : إدارة الإفتاء بوزاة الأوقاف)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607101853

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں