بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1446ھ 28 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

خود کشی کرنے والے کے پسماندگان کے لیے کیا حکم ہے؟


سوال

محترم میں گھر پر تھا، فون آیا گھر کے نمبر پر اور مجھے کہا گیا کہ تمہارے گھر سے مجھے ہمیشہ فون آتا ہے، جس میں عورت کی آوازیں ہوتی ہیں، وہ شخص شہر میں تھا جس کی موبائل کی دوکان تھی، صبح جب میں اس کے پاس گیاتو اس کے ساتھ اور لوگ بھی موجود تھے، اور سب نے اس کی بات کی تائید کی، میں نےگھر کی سِم وہیں پر توڑ دی، اور کہا کہ اب مسئلہ ہی ختم ہوگیا ہے، اس دوکان والے نے مجھ سے کہا کہ جب نئی سم لو، تو میرے نمبر پر مجھے فون کرنا، یہ مسئلہ مجھے بہت ہی خراب لگا۔

میں وہاں سے گھر آیا، اور گھر والوں کو ڈرایا دھمکایا، جس سے مجھے غیر شادی شدہ بہن پر شک ہوا، اس نے کہا کہ ’’ایک دن میں نے کال کی ہوگی، کوئی ہر دن نہیں کی‘‘میں نے اس سے کہا کہ اب میں تمہیں مار ڈالتا ہوں، اور ساری کہانی والد صاحب کو بتاؤں گا، اس پر وہ ڈر گئی اورپستول سے گولی مار کر خود کشی کرلی، پولیس نے سِم کا ریکارڈ چیک کیا تو اس میں کسی قسم کی گپ شپ ریکارڈ نہیں تھی، ان لوگوں نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا۔

اب یہ بتائیں کہ میری بہن کی موت کیسی ہے؟ اور اب میرے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ خود کشی کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، نیز خود کشی کرکے اپنے آپ کو قتل کرنا دوسرے کو قتل کرنے سے بھی زیادہ بدترین گناہ ہے، لیکن ان سب کے باوجود یہ گناہ قابلِ معافی ہے، اور عوام الناس کے لیے خود کشی کرنے والے کی جنازہ پڑھنا اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنا بھی جائز ہے۔

اس لیے سائل کو چاہیے کہ اپنی بہن کے لیے توبہ واستغفار کرے، ساتھ ہی ایک بے بنیاد بات پر بہن کو ڈرانے دھمکانے پر خود بھی اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرے  ۔

الكبائر للذهبي میں ہے:

"‌‌[الكبيرة التاسعة والعشرون أن يقتل الإنسان نفسه] قال الله تعالى : ولا تقتلوا أنفسكم . . . وذهب قوم إلى أن هذا نهي عن قتل الإنسان ‌نفسه . . . وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من قتل نفسه بحديدة فحديدته في يده يتوجأ بها في بطنه في نار جهنم خالدا فيها أبدا ومن قتل نفسه بسم فسمه في يده يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا ومن نزل من جبل فقتل نفسه فهو ينزل في نار جهنم خالدا فيها أبدا مخرج في الصحيحين."

(الکبیرۃ التاسعة والعشرون، ص: ١٢٣، ط: دار الندوة الجديدة)

حاشية ابن عابدين میں ہے:

"(من قتل نفسه) ولو (عمدا يغسل ويصلى عليه) به يفتى وإن كان أعظم وزرا من قاتل غيره.

(قوله به يفتى) لأنه فاسق غير ساع في الأرض بالفساد، وإن كان باغيا على نفسه كسائر فساق المسلمين زيلعي . . . وأيضا فالتعليل بأنه لا توبة له مشكل على قواعد أهل السنة والجماعة لإطلاق النصوص في قبول توبة العاصي، بل التوبة من الكفر مقبولة قطعا وهو أعظم وزرا."

(کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج: ٢، ص: ٢١١، ط: سعيد)

’’امداد الفتاویٰ‘‘ میں ہے:

’’سوال (۲۹۵۳): قدیم ۴/ ۶۰۷ - کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین صورت مسئولہ میں کہ ایک شخص نے عمداً اپنے نفس کو بذریعہ بندوق ضائع کردیا اور مرحوم مرگیا جس کا پوسٹ مارٹم ہونے کے بعد دفن ہوا۔۔۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ عذاب میں مبتلا ہوگا جس کی تلافی کے لیے بقیہ پس ماندگان کو کوئی شکل بتلائی جاوے کہ اس کو اختیار کرنے سے اس کے عذاب میں تخفیف ہو؟

الجواب : بیشک ان آیات میں اس فعل کا معصیتِ شدیدہ اور موجبِ وعید ہونا منصوص ہے، لیکن دوسری نصوص میں جمیع مؤمنین کے لیے (جن میں باطلاق الفاظ تمام اہل معاصی و مستحقین و عید بھی داخل ہیں ) دعائے مغفرت کی ترغیب بھی ( جو کہ عقلاً وسمعا مستلزم ہے اس کی نافعیت کو ) وارد ہے۔۔۔ اور احادیث معتضده باجماع الامۃ فی ہذا الباب شاملہ للدعا وسائر اعمال الثواب کا تو احصار ممکن نہیں، بہر حال جس طرح جمیع اموات مسلمین کے لیے ایصال ثواب کے طریق مثلِ دعا واستغفار وتہلیل وتسبیح وصدقات وخیرات ونوافل وتلاوت وغیرہا تخفیفِ عذاب بلکہ رفعِ عذاب میں نافع ہوتے ہیں، اسی طرح قاتلِ نفس کے لیے بھی، اور ان سب میں زیادہ نافع بلا کسی قسم کے اختلاف کے دو عمل ہیں: ایک دُعائے مغفرت دوسرا صدقہ مالیہ۔ واللہ اعلم۔‘‘

(تحت رسالۂ احکام الایقان، ج: ۱۰، ص: ۴۴۶، ط: مکتبہ زکریا)

فقط واللہ تعالیٰ اعلم


فتوی نمبر : 144607101657

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں