بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

خود کشی كرنے كا حكم


سوال

میں نے زندگی میں پہلی بار چوری کی تھی اسکے بعد میں پکڑا گیا ، پھر میں نے سچے دل سے توبہ کی اب بدنامی کی وجہ سے میرا خودکشی کرنے کا دل چاہتا ہے تو کیا میری توبہ قبول ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ خودکشی کرنا شریعت کی طرف سے حرام کردہ ایک سنگین گناہ ہے، اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے اور خود کشی کرنے والے کو جہنم کا سزاوار کہا ہے، اس کے بارے میں احادیث میں بہت سخت وعیدیں آئیں ہیں؛ حدیث مبارکہ میں ہے: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: " جس شخص نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خود کشی کر لی وہ شخص ہمیشہ دوزخ میں گرایا جائے گا اور وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور کبھی اس سے نہیں نکلے گا ۔ جو شخص زہر پی کر خود کشی  کرے گا اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں پئے گا وہ دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اس سے کبھی نہیں نکلے گا ۔ اور جس شخص نے لوہے کے (کسی ) ہتھیار (جیسے چھری وغیرہ ) سے اپنے آپ کو مار ڈالا اس کا وہ ہتھیار دوزخ کی آگ میں اس کے ہاتھ میں ہوگا جس کو وہ اپنے پیٹ میں گھونپے گا اور دوزخ میں ہمیشہ رہے گا اس سے کبھی نہیں نکلے گا۔“

حدیث کاحاصل یہ ہے کہ اس دنیا میں جو شخص جس چیز کے ذریعہ خود کشی کرے گا آخرت میں اس کو ہمیشہ کے لیے اسی چیز کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ۔  یہاں " ہمیشہ " سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ خود کشی کو حلال جان کر ارتکاب کریں گے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے ، یا پھر " ہمیشہ ہمیشہ " سے مراد یہ ہے کہ خود کشی کرنے والے مدت دراز تک عذاب میں مبتلا رہیں گے۔

ایک اور حدیث میں ہے: حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :" جس شخص نے گلا گھونٹ کر اپنے آپ کو مار ڈالا وہ دوزخ میں بھی اپنا گلا گھونٹے گا اور جس شخص نے اپنے آپ کو نیزہ مار کر خود کشی کر لی وہ دوزخ میں (بھی ) اپنے آپ کو نیزے مارے گا ۔

ایک اور حدیث میں ہے:حضرت جندب ابن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دن فرمایا: " تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص تھا (جو کسی طرح ) زخمی ہو گیا تھا چناں چہ (جب زخم کی تکلیف شدید ہونے کی وجہ سے ) اس نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا تو چھرئی اٹھائی اور اپنے (اس ) ہاتھ کو کاٹ ڈالا (جس میں زخم تھا ) اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زخم نہ رکا اور وہ مر گیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے اپنی جان کے بارے میں میرے فیصلہ کا انتظار نہیں کیا، (بلکہ اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا )؛ لہٰذا میں نے اس پر جنت کو حرام کر دیا ۔" ( بخاری ومسلم )

صورت مسئولہ میں  بدنامي كے وجہ  سے خودکشی کرنے کی گنجائش نہیں ہے    خود کشی کرنا کسی حال میں جائز نہیں ہے،   دنیاوی مصائب سے تنگ آکر اگر خودکشی کرلی تو دنیا کے ساتھ آخرت بھی تباہ وبرباد ہوجائے گی،نيز  گناہوں سے معافی کے لیے  سچی توبہ ضروری ہے،اگر گناہ گار بندہ صدقِ دل کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں توبہ کرے تو اللہ تعالٰی بڑے سے بڑا گناہ بھی معاف فرمادیتے ہیں،نیزجس کامال چرایاتھا وہ اس کو واپس کردے اگر چوری شدہ مال استعمال کرچکاہے تو اس کا مثل یا اس کی قیمت  دیدے اور اللہ تعالی سے توبہ قبول ہونے کی امید  رکھے ۔

سچی توبہ کے    تین رکن ہیں:

(1)اپنے کیے پر ندامت اور شرم ساری۔

(2)جس گناہ کا ارتکاب کیا ہے اس کو فوراً چھوڑ دے اور آئندہ  اس سے باز رہنے کا پختہ عزم و ارادہ کرے۔

(3)تلافی مافات کی فکر کرے، یعنی جو گناہ سر زد ہو چکا ہے اس کا جتنا تدارک اس کی قدرت میں ہے اس کو پورا کرے، مثلاً نماز روزہ فوت ہوا ہے تو اس کو قضا کرے، فوت شدہ نمازوں اور روزوں کی صحیح تعداد یاد نہ ہو، تو غور و فکر سے کام لے کر تخمینہ متعین کرے، پھر ان کی قضا  کرنے کا پورا اہتمام کرے، بیک وقت نہیں کر سکتا تو ہر نماز کے ساتھ ایک ایک نماز قضاءِ عمری کی پڑھ لیا کرے، ایسے ہی متفرق اوقات میں روزوں کی قضا  کا اہتمام کرے، فرض زکاۃ ادا نہیں کی تو گزشتہ زمانہ کی زکاۃ بھی یک مشت یا تھوڑی تھوڑی ادا کرتارہے، کسی انسان کا حق اس کے ذمہ  ہے تو اس کو ادا کرے، کسی کو تکلیف پہنچائی ہے تو اس سے معافی طلب کرے،  بندے کا حق اس کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوتا۔

 اگر اپنے کیے پر ندامت نہ ہو، یا ندامت تو ہو مگر آئندہ کے لیے اس گناہ کو ترک نہ کرے، تو یہ توبہ نہیں ہے،چاہےہزار مرتبہ زبان سے توبہ توبہ کہا کرے۔

(مستفاد مع تغییر معارف القرآن، ج:2، ص:342، ط:دارالعلوم کراچی)

حدیث میں ارشاد ہے:

"إنما التوبة الندم" 

"یعنی توبہ نام ہی ندامت کا ہے."

(سنن ابن ماجة ،باب ذكر التوبة، ج:2، ص:1420ط:داراحیاء الکتب العربیة)

 لہٰذا جس شخص سےگناہ سرزد ہوگیا ہو اگر  وہ ان شرائط کے ساتھ توبہ کرچکا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ گناہوں کو معاف فرمائیں گے، اب اسے چاہیے کہ آئندہ ان گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرے، اور کسی متبعِ سنت اللہ والے سے اصلاحی تعلق قائم کرے اور جتنا ہوسکے اپنی نشست وبرخاست نیک لوگوں کے ساتھ رکھے، عبادات و طاعات میں اہتمام کے ساتھ مشغول رہے، حسبِ توفیق صدقہ بھی ادا کرتارہے۔

دینِ اسلام میں مایوسی بالکل نہیں ہے، انسان خطا کا پتلا ہے، گناہ انسان کی فطرت میں داخل ہے، لیکن بہترین ہے وہ شخص جو گناہ کرکے اس پر قائم نہ رہے، بلکہ فوراً توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «كل ابن آدم خطاء وخير الخطائين ‌التوابون "

’’ہر بنی آدم (انسان) بہت زیادہ خطا کار ہے، اور (لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک) بہترین خطاکار وہ ہیں جو کثرت سے توبہ کرنے والے ہوں۔‘‘

(سنن الترمذی،أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،ج:4، ص: 611، ط:مصطفیٰ البابی ،مصر )

گناہ پر پشیمانی حیاتِ ایمانی کی علامت ہے، اور توبہ کی اولین شرط یہی ندامت و پشیمانی ہے، حدیث شریف میں ندامت کو ہی توبہ کہا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص اسی ندامت کے ساتھ گناہ کرنا چھوڑ دے اور اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے معافی مانگے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پکا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی توبہ قبول فرما کر اس  کو معاف فرما دیتے ہیں۔ بلکہ توبہ کرنے والا شخص اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب بن جاتا ہے۔

قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں توبہ  کے بہت فضائل وارد ہوئے ہیں، مثلاً:

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ بواسطہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گناہ گار بندوں سے ارشاد فرماتے ہیں:

"قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ"[الزمر:53]

ترجمہ: "آپ کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے (کفر و شرک کرکے) اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بالیقین اللہ تعالیٰ تمام (گزشتہ) گناہوں کو معاف فرمائے گا، واقع وہ بڑا بخشنے والا، بڑی رحمت کرنے والا ہے۔" (بیان القرآن)

توبہ کرکے بندہ اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب بن جاتا ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ‘‘ [البقرة:222]

ترجمہ: "یقینًا اللہ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔‘"(بیان القرآن)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"التائب من الذنب، كمن لا ذنب له"

"گناہ سے (صدقِ دل سے) توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح (پاک و صاف ہوجاتا) ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔"

(سنن ابن ماجة ،باب ذكر التوبة، ج:2، ص:1419ط:داراحیاء الکتب العربیة)

اس سے معلوم ہوا کہ بندہ جب توبہ کرلیتا ہے تو وہ فاسق وفاجر نہیں رہتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

"{ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ(4)إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (5)}" [النور: 4 - 5]

ترجمہ : " اور جو لوگ (زنا) کی تہمت لگائیں پاک دامن عورتوں کو  اور پھر چار گواہ (اپنے دعوے پر) نہ لا سکیں تو ایسے لوگوں کو اسّی درّے لگاؤ اور  ان کی کوئی گواہی قبول مت کرو (یہ تو دنیا میں ان کی سزا ہوئی) اور یہ لوگ (آخرت میں بھی مستحق سزا ہیں اس وجہ سے ہے کہ) فاسق ہیں۔ لیکن جو لوگ اس (تہمت لگانے) کے بعد ( خدا کے سامنے) توبہ کرلیں اور (اپنی حالت کی) اصلاح کرلیں سو (اس حالت میں) اللہ تعالیٰ ضرور مغفرت کرنے والا ہے۔"(از بیان القرآن)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من تردى من جبل فقتل نفسه ; فهو في نار جهنم يتردى فيها خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن تحسى سما فقتل نفسه؛ فسمه في يده يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن قتل نفسه بحديدة، فحديدته في يده يتوجأ بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا» ". متفق عليه.

قال الطيبي رحمه الله: والظاهر أن المراد من هؤلاء الذين فعلوا ذلك مستحلين له وإن أريد منه العموم، فالمراد من الخلود والتأبيد المكث الطويل المشترك بين دوام الانقطاع له، واستمرار مديد ينقطع بعد حين بعيد لاستعمالهما في المعنيين، فيقال: وقف وقفا مخلدا مخلدا مؤبدا، وأدخل فلان حبس الأبد، والاشتراك والمجاز خلاف الأصل فيجب جعلهما للقدر المشترك بينهما للتوفيق بينه وبين ما ذكرنا من الدلائل."

(كتاب القصاص،رقم الحديث:3453، ج:6، ص:2262، ط:دارالفكر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607102357

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں