آپ کے فتوی نمبر 144304100841 کے بعد ہم نے لڑکے کو خلع کے کاغذ بھیجے کہ وہ ان پر دستخط کردے تو اس نے اپنے اختیارات وکیل کو دے دیے کہ یہ میری طرف سے دستخط کردےگا ،کیوں کہ وہ خود مسقط میں ہے اور فی الحال پاکستان میں نہیں آسکتا اور میری بیٹی کو واٹس ایپ پر پیغام بھیجا ہے کہ "آج میں نے تم کو اللہ کے لیے معاف کیا اور آزاد کیا، بدلہ کیا لوں تم کمزور لوگوں سے" اور کال پر بھی یہی بات کہی ہے۔
۱۔ کیا اب طلاق واقع ہوگئی؟
۲۔ کیا وکیل کے دستخط سے خلع ہوجائے گی؟
۱۔ صورت مسئولہ میں اگرواقعۃً سائل کی بیٹی کے شوہر نے اسے یہ کہا اور میسج کیا کہ " آج میں نے تم کو اللہ کے لیے معاف کیا اور آزاد کیا، بدلہ کیا لوں تم کمزور لوگوں سے " تو جب پہلی مرتبہ (خواہ فون پر یا میسج پر) یہ الفاظ کہے تھے، اس وقت بیٹی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوچکی تھی، اس کے بعد دوسری مرتبہ کہنے سے دوسری طلاق واقع نہیں ہوئی، نکاح ختم ہوچکا ہے، اب سائل کی بیٹی آزاد ہے، کسی دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔
۲۔ وکیل نے جن کاغذات پر دستخط کیے ہوں، وہ منسلک کرکے دوبارہ سوال کریں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 299) :
فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 308) :
(لا) يلحق البائن (البائن)
احسن الفتاوی میں ہے :
"اس تحریر میں تین جملے ہیں: ۱، جاؤ۔ ۲، اپنے ابا کے گھر چلی جاؤ۔ ۳، میں نے آزاد کر دیا …
تیسرا جملہ طلاق صریح بائن ہے؛ لہذا اس سے طلاق کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو، بہرحال ایک طلاق بائن واقع ہوگئی۔"
(۵/۲۰۲، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100718
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن