میری شادی کو 29 سال کا عرصہ گزر چکا ہے، میری تین بیٹیاں ہیں، دو بیٹیاں شادی شدہ ہیں، ایک بیٹی میرے ساتھ رہتی ہے، میرا تمام ترخرچہ میرے والدین اور بھائی پورا کرتے ہیں، میں جب اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی، کئی مرتبہ رات کو گھر سے نکال دیتے رہے، میں اپنے بچوں کے ساتھ رات کو بھائی کے گھر آ جاتی رہی، جب کہ میرا تمام تر زیور بھی فروخت کر کے کھا گئے، کئی لوگوں کا قرضہ لے کر فرار ہو چکے ہیں، اب میں خلع لینا چاہتی ہوں، عدالت سے رجوع بھی کیا ہے، دس اکتوبر کو بلایا ہے، میرے شوہر کا کہنا یہ ہے کہ عدالت کا فیصلہ کرنے کے بعد بھی میں دوبارہ نکاح کر سکتا ہوں، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟وہ کہتے ہیں کہ تم خلع لینے کے بعد میری اجازت کے بغیر دوسرا نکاح نہیں کر سکتی؟ خلع لینے کے بعد کیا لڑکی دوسری شادی کر سکتی ہے؟
جب میں نے اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کیا تھا تو شوہر نے یہ کہا تھا: میں دستخط نہیں کروں گا، آپ کورٹ سے رجوع کر لیں۔
خلع کے معاملہ کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ شوہر اس خلع پر رضامند ہو، اگر شوہر زبانی یا تحریری دستخط کی صورت میں خلع پر رضامندی کا اظہار کر دیتا ہے تو وہ خلع معتبر ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں میاں بیوی کا نکاح ختم ہو جاتا ہے، اس کے بعد عدت گزار کر عورت دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوتی ہے اور پہلا شوہر اپنی سابقہ بیوی کی اجازت کے بغیر اس سے دوبارہ نکاح نہیں کر سکتا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃً صحیح ہے کہ شوہر سے خلع کا جب مطالبہ کیا تو اس کے جواب میں آپ کے شوہر نے آپ سے یہ جملہ کہا تھا کہ "میں دستخط نہیں کروں گا، آپ کورٹ سے رجوع کر لیں" تو یہ جملہ شوہر کی طرف سے خلع کی اجازت اور اس پر رضامندی پر دلالت کرتا ہے، اس کے بعد اگر کورٹ آپ کو خلع کی ڈگری جاری کر دیتی ہے تو نکاح ختم ہو جائے گا اور عدت گزار کر آپ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوں گی۔
عدت پوری تین ماہواری ہو گی اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش پر عدت ختم ہو گی، اور اگر عمر میں زیادتی کی وجہ سے ماہواری بند ہو گئی ہو تو ایسی صورت میں عدت تین ماہ ہو گی۔
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق ، جلد : 3 ، صفحه : 145 ، طبع : دار الكتب العلمية)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و) العدة (في) حق (من لم تحض) حرة أم أم ولد (لصغر) بأن لم تبلغ تسعا (أو كبر) . بأن بلغت سن الإياس (أو بلغت بالسن) وخرج بقوله (ولم تحض) ... (ثلاثة أشهر) بالأهلة لو في الغرة وإلا فبالأيام بحر وغيره."
(کتاب الطلاق ، باب العدۃ ، جلد : 3 ، صفحه : 507 ، طبع : سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603103158
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن