بندہ نے گھریلو نا چاقی کی وجہ سے بیوی سے کہا کہ اگر تمھیں مجھ سے اتنی ہی نفرت ہے تو خلع لے لو ، اس پر بیوی نے فورا کہا لیتی ہوں تو شوہر نے کہا کہ ایسے نہیں پہلے تم مہر کا دو تولے سونا واپس کرو پھر خلع ہوگی، اس پر بیوی نے کوئی جواب نہیں دیا اور تین دن بعد شوہر کو بتائے بغیر اپنے والد اور ماموں کے ساتھ اپنے گاؤں چلی گئی تھی ، کیونکہ بیوی نے سمجھا کہ خلع کی وجہ سے طلاق بائن ہو چکی ہے، حالانکہ وہ حاملہ تھی، اور شوہر نے مسئلہ میں غلط فہمی کی وجہ سے کہا کہ تمہارے خلع قبول کرنے کی وجہ سے طلاق بائن ہو چکی ہے، حالانکہ بیوی کے جانے کے بعد شوہر کو مسئلہ کی تحقیق ملی کہ اس کے الفاظ "خلع لے لو" عربی میں "اخلعی" کے معنی میں ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان الفاظ سے خلع ہو گئی یا بیوی جب تک سونا واپس نہ کرے اور شوہر بغیر مال کے خلع پر راضی نہ ہو تو خلع نہیں ہوئی؟ کیا مذکورہ صورت میں صرف دو تولہ سونے پر خلع ہو گی، کیونکہ شوہر کو معلوم نہیں تھا کہ اس کی والدہ نے ساڑھے چار تولہ سوناادا کیا ہے، کیا مذکورہ صورت میں بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر والدین کے گھر چلے جانے کی وجہ سے نان نفقہ لازم ہو گا؟ اور اس کا مطالبہ جائز ہے؟ حمل کی صورت میں ہسپتال کا خرچہ کیا شوہر کے ذمہ ہے؟ حالانکہ شوہر اور اس کی والدہ نے دو تین مرتبہ اس کو واپس آنے کا کہا، کہ یہاں سرکاری ہسپتا ل ہے اور اس میں علاج مفت ہے، اس کے باوجود وہ علاج کا خرچہ مانگ سکتی ہے؟
اگر مذکورہ صورت میں بیوی نے سونا واپس نہ دیا اور شوہر مہر کی واپسی کے بغیر خلع پر رضامند نہیں ہوا تو کیا اس صورت میں بیوی کا اپنے والدین کے گھر میں رہنا اور وضع حمل کی صورت میں بچہ بھی اپنے پاس رکھنا جائز ہے؟ کیا بچہ ہونے کے بعد بچے کا خرچ شوہر کا بیوی کو بھیجنا لازم ہے؟ حالانکہ شوہر اپنی بیوی اور بچے کو اپنے گھر بسانے پرر ضامند ہے،لیکن بیوی بضد ہے اور واپس نہیں آنا چاہتی۔
صورت مسئولہ میں خلع واقع نہیں ہوئی ہےجب تک کہ میاں بیوی دوبارہ ایجاب وقبول نہ کریں، اور چونکہ ابھی خلع واقع نہیں ہوئی تو آئندہ خلع کی صورت میں دو تولہ سونا لازم نہیں ہو گا، بلکہ جس رقم یا مہر کی مقدار پر میاں بیوی کا اتفاق ہو جائے اسی پر خلع ہو گی، نیز سائل کی بیوی نے سائل کی اجازت کے بغیر جو عرصہ والدین کے گھر میں گزارا اس مدت کے علاج و معالجہ اور نان نفقہ کی وہ حق دار نہیں ہوگی ، سائل پر اس کی ادائیگی لازم نہیں ہے،جب تک سائل کے گھر نہیں آجاتی، اس وقت تک بیوی کے علاج کا خرچہ سائل پر لازم نہیں ہے، تاہم اس کے باوجود شوہر اگر نان نفقہ اور علاج و معالجہ کی رقم ادا کرے تو یہ اس کی طرف سے احسان اور تبرع ہوگا، البتہ بچہ کا خرچہ سائل کے ذمہ ادا کرنا لازم ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما ركنه: فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلاتقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول."
( فصل فی حکم الخلع،ج:3، ص:145، ط :سعید)
فتاوی شامی میں ہے :
"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية: لايتم الخلع ما لم يقبل بعده."
(باب الخلع، ج:3، ص: 440، ط:دار الفكر-بيروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق، الباب الثامن فی الخلع،ج:1، ص:488، ط: دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"وشرعا كما في البحر (إزالة ملك النكاح) خرج به الخلع في النكاح الفاسد وبعد البينونة والردة فإنه لغو كما في الفصول (المتوقفة على قبولها) خرج ما لو قال: خلعتك - ناويا الطلاق - فإنه يقع بائنا غير مسقط للحقوق لعدم توقفه عليه.
(قوله: أو اختلعي إلخ) إذا قال لها اخلعي نفسك فهو على أربعة أوجه: إما أن يقول بكذا فخلعت يصح وإن لم يقل الزوج بعده: أجزت، أو قبلت على المختار؛ وإما أن يقول بمال ولم يقدره، أو بما شئت فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية لا يتم الخلع ما لم يقبل بعده، وإما أن يقول اخلعي ولم يزد عليه فخلعت، فعند أبي يوسف لم يكن خلعا. وعن محمد تطلق بلا بدل، وبه أخذ كثير من المشايخ."
(باب الخلع، ج:3، ص:440، ط: دارالفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه."
(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، ج:1، ص:545، ط: رشیدیة)
فتاوی شامی میں ہے:
" (قوله: كما لا يلزمه مداواتها) أي إتيانه لها بدواء المرض ولا أجرة الطبيب ولا الفصد ولا الحجامة هندية عن السراج. والظاهر أن منها ما تستعمله النفساء مما يزيل الكلف ونحوه."
(باب النفقة، ج:3، ص:575، ط:سعید)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة."
(کتاب الطلاق الباب السابع عشر، الفصل الرابع فی نفقۃ الأولاد، ج:1، ص:560، ط: رشیدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101014
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن