بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

خلع سے متعلق چند اہم سوال اور آیت خلع کی تفسیر


سوال

1۔ اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے خلع لے تو اس کی عدت کی مدت کیا ہوگی؟

2۔ اگر عورت قاضی وقت کے پاس خلع کے لیے درخواست نہ دے تو کیا خاندان کے بڑوں میں یہ فیصلہ ہوسکتا ہے؟

3۔ سورۃ البقرۃ کی آیت 229 کے مطابق (تو ان پر اس (مالی معاوضے) میں کچھ گناہ نہیں جو عورت بدلے میں دے کر چھٹکارا حاصل کرلے) اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں  خلع لینے کے بعد عورت پر جو عدت لازم ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر عورت حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل(بچہ جننے تک)ہوگی، اگر حمل نہ ہو اور  ماہواری آتی ہو تو عدت  تین حیض مکمل ہونے تک ہو گی اور اگر ماہواری نہ آتی ہو تو عدت تین ماہ تک ہوگی۔ 

2۔ واضح رہے کہ خلع مرد و عورت کے درمیان ایجاب و قبول کا معاملہ ہے، اگر دونوں رضامندی سے خاندان کے بڑوں کے سامنے خلع کا فیصلہ کر لیں اس طور پر کہ عورت خلع کا مطالبہ کرے اور شوہر اسے قبول کرلےتو شرعاً یہ خلع بھی معتبر ہے، عدالت سے خلع لینا ضروری نہیں ہے۔ 

3۔ اس آیت کا مطلب اور سیاق بیان القرآن سے بعینہ نقل کیا جاتا ہے:

بیان القرآن میں ہے:

"اور تمہارے لیے یہ بات حلال نہیں کہ (بیویوں کو چھوڑتے وقت ان سے) کچھ بھی لو(گو وہ لیا ہوا )، اس (مال) میں سے (کیوں نہ ہو) جو تم (ہی) ان کو (مہر میں)دیا تھامگر (ایک صورت میں البتہ حلال ہے وہ) یہ کہ (کوئی) میاں بی بی (ایسے ہوں کہ) دونوں کو احتمال ہو کہ اللہ تعالی کے ضابطوں کو (جو دربارہ ادائے حقوق زوجیت ہیں) قائم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا اس (مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے (بشرطیکہ مہر سے زیادہ نہ ہو) یہ (سب احکام) خدائی ضابطے ہیں سو تم ان سے باہر مت نکلنا اور جو شخص خدائی ضابطوں سے باہر نکل جاوے سو ایسے ہی لوگ اپنا نقصان کرنے والے ہیں۔ 

آگے مزید لکھتےہیں:

اگر ناموافقت زوجین میں قصور عورت کا ہے اور خود ہی درخواست خلع کی کرتی ہے گنہگار ہوگی اور مرد مال لینے میں گنہگار نہ ہوگا البتہ مہر سے زیادہ لینا مکروہ ہوگا۔ اور اگر ناموافقت میں قصور مرد کا ہے تو خلع کا مال مطلقاً لینے سے مرد گنہگار ہوگاجیسا کہ احقر نے  ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ شَيۡـًٔا  میں اشارہ بھی كردیا ہے کہ مہر لینا بھی مکروہ ہے چہ جائے کہ اتنا مال لینے لگے کہ اس نے دیا بھی نہیں اور عورت مال دینے سے گناہ گار نہ ہوگی۔ اور اگر مرد تو عورت کا قصور سمجھتا ہے اور عورت مرد کا قصور سمجھتی ہے اور ہر شخص اپنی رائے میں اپنے کو مظلو ام ور دوسرے کو ظالم سمجھتا ہے تو نہ مرد کو لینے میں گناہ ہوگا لیکن مہر سے زیادہ لینا مکروہ ہے جیسا احقر نے اثناء ترجمہ میں ظاہر بھی کردیا ہے اور نہ عورت کو خلع کی درخواست میں گناہ ہوگا۔

(ص:162، 163، ج:1،ط:رحمانیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے: 

وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول، بخلاف ما إذا قال خالعتك ولم يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع

(کتاب الطلاق،باب الخلع، ص:441،ج:3، ط: سعید)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

  (قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد.

(كتاب الطلاق، باب الخلع، ص:173، ج:6، ط: دارالکتب العلمیه)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج.

 والعدة لمن لم تحض لصغر أو كبر أو بلغت بالسن ولم تحض ثلاثة أشهر كذا في النقاية.وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي

(الباب الثالث عشر فی العدۃ، کتاب الطلاق، ص:526، 528، ج:1، ط:رشیدیه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں